یمہ بستی

پروفیسر قیصر عباس

آج ایک تصویر اخبار میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔یہ تصویر زمان پارک لاہور میں قائم ایک عارضی خیمہ بستی کی ہے۔یہ خیمہ بستی نہ تو مہاجرین کی ہے اور نہ ہی سیلاب متاثرین کی بلکہ اس خیمہ بستی میں عمران خان صاحب کے جانثار قیام پذیر ہیں۔جی ہاں یہ وہی ٹائیگرز ہیں جنہیں عمران خان سے ہاتھ ملانا تو دور ان کی رہائش گاہ میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں ہوگی۔مگر یہ کارکن کتنے روز سے سر پر کفن باندھ کر اپنے لیڈر کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے گھروں سے دور خیمہ بستی میں اپنے شب روز گزار رہے ہیں۔پاکستانی سیاست میں شخصیت پرستی رچ بس چکی ہے۔ہر جماعت کا سیاسی ورکر اپنے جماعت کے لیڈر کو معصوم عن الخطا تصور کرتا ہے۔شخصیت پرستی پاکستانی سیاسی کلچر میں اتنی ہی پرانی ہے جتنا پاکستان ۔اس کی سب سے بڑی مثال سندھ دھرتی ہے جہاں آج بھی لوگ بھوک،افلاس سیلاب جیسی قدرتی آفات سے مر رہے ہیں مگر اس قابل رحم صوبے میںبھٹو اب بھی زندہ ہے۔ان کارکنوں کو کب سمجھ آئے گی؟ کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ان کے لیڈران کو ان کی ہی لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے جن پر یہ لیڈران اپنی سیاست کو زندہ رکھتے ہیں ۔سب کے بچے تو بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں وہ اگر پاکستان آتے بھی ہیں تو حکومت کرنے۔یعنی یہ وہ طبقہ ہے جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہے۔جس نے نہ مہنگائی کے طوفان کا سامنا کیا ہے اور نہ ہی ان کہ کشتی حیات کبھی بے روزگاری کی بے رحم موجوں سے ٹکرائی ہے۔جب کہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جسے روزگار کے لئے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔جنکی زندگی کی کشتی روز مہنگائی کے تھپیڑوں کا سامنا کرتی ہے۔جس کی صبح کا آغاز ایک لمبی قطار میں آٹے کے حصول سے شروع ہوتا ہے اور شام، بچوں کی فیس ،کتابوں اور کاپیوں کی فکر کے ساتھ احتتام پذیر ہوتی ہے۔ہر پانچ سال بعد یہ لوگ ایک ڈرامے میں بطور ووٹر حصہ لیتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ اب کی دفعہ جو سرکار آئے گی وہ ان کے دکھوں کا مدوا کرے گی مگر سابق حکمرانوں کی طرح نئے آنے والے حکمران بھی معیشت کے گورکھ دھندے میں الجھا کر صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔یقین کریں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی نفسیات یکساں ہے ۔اس یکساں نفسیات میں سب سے بڑی مماثلت ،ذاتی مفادات کے حصول کے لئے اپنے سیاسی ورکرز کا استعمال ہے۔مگر جب انہی ورکرز کی وجہ سے یہ لوگ Powerمیں آتے ہیں تو پروٹوکول اور سےکیورٹی کے نام پر ایک بلند وبالا فصیل ورکرز اور ان لیڈران کے درمیان حائل ہوتی ہیں ۔یہ فصیل اتنی دیو ہیکل ہوتی ہے کہ جیسے کارکنوں کے نعرے آوے ای آوے اورتیرے جانثار بھی عبور نہیں کر سکتے۔یہ بیچارے کبھی گاڑیوں کے سامنے دھمالیں ڈالتے ہیں اور کبھی پارٹی ترانوں پر رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شاید لیڈر کی نظر التفات ان پر پڑ جائے مگر لیڈر تک رسائی تو بس ATMS کی ہوتی ہے جو اپنے سرمائے کی بدولت لیڈر کے دربار تک شرف باریابی پاتے ہیں ۔ٹکٹوں کے حصول میں کامیابی صرف ان شخصیات کو ملتی ہے جو پارٹی کو فنڈز کی مد میں بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔یہی وہ سرمایہ دار ،جاگیر دار ،صنعتکار ہوتے ہیں جو ایوانوں میں پہنچ کر ایسے قوانین تشکیل دیتے ہیں جن سے ان کے ناجائز کاروبار کو تحفظ ملتا ہے۔جب کہ غریب کارکنوں کی پہنچ صرف بریانی کے ڈبوں تک ہوتی ہے جسے کھا کر وہ بڑی مسرت حاصل کرتے ہیں۔تھانے کہچری کے معاملات کو سیٹل کروانا اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔لیڈران کی کرپشن کا دفاع کرنا سیاسی کارکنان پر واجب ہوتا ہے۔ہمارے سیاسی کارکنان کے کرپشن کے بارے مختلف نظریات ہیں کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔سیاست میں بہتری کے لئے سیاسی شعور ضروری ہے مگر ہمارے ہاں نہ کسی سیاسی لیڈر سے سوال کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر تنقید کی جا سکتی ہے اگر ایسی غلطی کوئی سیاسی کارکن کرے تو اسے باقی کارکنان کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے ۔تاکہ اگلی دفعہ ایسی جرات کوئی نہ کر سکے۔اس حد تک شخصیت پرستی ہے کہ لیڈر پر اٹھنے والی انگلی ہی نہیں پورے ہاتھ کو کاٹ دیا جاتاہے۔اب تو گالی کا کلچر گولی کے کلچر میں تبدیل ہوتا جارہاہے۔ہر جماعت کے ورکر نے اپنے لیڈر کو دیوتا بنایا ہوا ہے جس پر تنقید کرنا جرم نہیں بلکہ گناہ تصور کیا جاتاہے۔مذہبی جماعتوں کو ہی دیکھ لیں جس مذہب کے نام پر یہ جماعتیں تشکیل دی گئیں اسی مذہب کے بنیادی اصولوں میں موروثیت کی نفی ہے مگران کے لیڈران لیڈر شپ کسی عام کارکن کو دینے کے بارے سوچنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔مذہبی جماعتوں میں شخصیت پرستی تو اس حد تک ہے کہ اس دار فانی سے کوچ کرنے والے راہنماﺅں نے بھی جاتے جاتے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنا جانشین نامزد کرتے ہوئے اپنی اپنی جماعتوں پر مسلط کر دیا ۔اس لئے خیمہ بستی میں رہنے والے صرف قربانیاں دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہیں جبکہ چوری کھانے والے میاں مٹھو اور ہونگے۔