پروفیسر قیصر عباس
سوشل میڈیا پہ دو وڈیوزدیکھنے کا اتفاق ہوا پہلی وڈیوایک معصوم بچے کی ہے جسے خبر سنائی گئی ہے کہ تمہارا بابا پولیس لائن پشاور میں جمعہ کی نماز کے دوران خود کش حملے میں شہید ہو گیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی معصوم بچے نے رونا شروع کر دیا یقین جانیں اگر کوئی صاحب اولاد یہ وڈیو دیکھے تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ ریاست ان یتیم ہونے والے سینکڑوں بچوں کو مالی امداد بھی دے گی ۔ان کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرے گی اور ان کی کفالت کی ذمہ داری بھی اٹھائے گی یہ سب اک طرف لیکن کیا یہ سب کرنے سے جو بچہ یتیم ہوا ہے اس کا باپ واپس آجائے گا؟کیا باپ کے پیار کا مداوا مالی امداد ہے؟کیاباپ کے سائے کی جگہ کسی اور کا سایہ کام دے سکتا ہے ؟کیا باپ جیسی شفقت ومحبت کی توقع کسی دوسرے سے کی جاسکتی ہے؟ریاست کسی صورت اس سہاگن کے دکھ کا احساس نہیں کر سکتی جس کا سہاگ پشاور میں لٹ گیا۔نہ ہی اس ماں کو دلاسہ دے سکتی ہے جس نے اپنے بیٹے کو پال پوس کر موت کے حوالے کیا۔نہ ہی اس بہن کی امیدوں کا نعم البدل ہو سکتا ہے جس بہن کو بھائی نے رخصت کرنا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی بہن نے بھائی کے جنازے کو گھر سے رخصت کیا۔اور کئی قسمت کی ماریاں تو ایسی بھی ہوں گی جو آخری وقت جان سے عزیز بھائیوں کا آخری دیدار بھی نہ کر سکیں وجہ یہ ہے کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ بے گناہ نمازیوں کے جسم کے ٹکڑے اڑ گئے۔جن کی شناخت صرف DNA سے ہی ممکن ہوگی۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 102 ہوچکی ہے۔دوسری وڈیو چند موقع پرست ان عناصر کی ہے جن میں سیاستدان اور پولیس کے بڑے بڑے عہدے داران ہیں جو ان بے گناہوں کو سےکیورٹی تو نہ دے سکے مگر ایک شہید کا تابوت کندھے پر اٹھائے فوٹو سیشن کر رہے ہیں۔یہ مردہ ضمیر کل آنے والے اخبارات کے لئے تصاویر بنوا رہے تھے ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ تصویر میں نمایاں نظر آئے اور خاص پوز بنا کر اپنے اس شغل میں مگن رہے۔جتنی محنت کر کے شہدا کے تابوتوں کے ساتھ یہ بے حس افراد تصویریں بنوا رہے ہیں اگر اتنی محنت نمازیوں کو سےکیورٹی فراہم کرنے میں کی ہوتی تو اتنی بڑی تباہی نہ آتی۔پشاور کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی خون ریز واقعات ہوچکے ہیں2016 میں APS کا واقعہ کون بھول سکتا ہے۔جب ادھ کھلے100سے زائد معصوم پھولوں کو مسل دیا گیا ہے۔بلور خاندان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیاگیا۔دسمبر 2012 کو بشیر احمد بلور کو خودکش حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔بشیر احمد بلور کے بیٹے ہارون بلور کو 2018 کے الیکشن کمپین میں ٹارگٹ کیا گیا ۔ چوبیس جولائی 2010 کو ANP کے سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار کے اکلوتے جواں سال بیٹے راشد حسین کو ٹارگٹ کر کے قتل کردیا گیا۔پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔مسلم لیگ نون کے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کو17 اگست 2015کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔مولانا فضل الرحمن پر کئی دفعہ خودکش حملہ کیا گیا مگر وہ بال بال بچ گئے2012میں ہی قاضی حسین احمد پر خود کش حملہ ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے فوجی آفیسرز ،فوجی جوان پولیس والے اور حساس اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد اس گمراہ طبقے کا نشانہ بن چکے ہیں اور اپنی جانیں ملک عزیز پر قربان کر چکے ہیں۔اتنا جانی و مالی نقصان ہونے کے باوجود ہم کس تذبذب کا شکار ہیں ؟کہاں ہیں وہ لوگ؟ جو کہتے تھے کہ یہ سب امریکی جارحیت کا نتیجہ اور ردعمل ہے اب تو امریکہ بھی جا چکا پھر بھی یہ خون کی ہولی کیوں جاری ہے۔ہمارے کچھ افلاطونوں نے اچھے طالبان اور برے طالبان کا نظریہ بھی متعارف کروایا۔سوال یہ ہے کہ جب اچھے طالبان ہماری مدد سے اقتدار میں آچکے ہیں بلکہ سب سے پہلے ہم نے ہی انہیں شرف میزبانی ،کابل ائیرپورٹ پر چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر بخشا تو ان اچھے لوگوں نے برے لوگوں کا راستہ روکنے میں ہماری مدد کیوں نہیں کی؟حالانکہ ان اچھے طالبان کا برے طالبان پر اچھا خاصا اثرورسوخ ہے تو کیوں وہ اپنے اس اثرورسوخ کو استعمال نہیں کر رہے ؟ہماری مغربی سرحد تو مکمل طور پر غیر محفوظ ہوچکی ہے آئے روز ہم اپنے فوجی جوانوں کے تابوتوں کو کندھا دے رہے ہیں۔اب ایک بار پھر سے ہمارے سرحدی علاقوں سے بات بڑھ کر بندوبستی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔اس آگ کو مزید پھیلنے سے روکنا ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے ہمسائے ملک کے ارباب اختیار سے دوٹوک بات کرنا پڑے گی ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو Revisit کرنا ہوگا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پالیسیاں تشکیل دینا ہوںگی اور اس دہشت گردی جیسے ناسور کو ختم کرنے کےلئے مل بیٹھ کر اقدامات اٹھانا ہونگے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں بھی یونہی خون کا خراج دیتی رہیں گی۔