احسان علی دانش
جس طرح میدانی علاقے کے سیاحوں کے لئے پہاڑی علاقے بڑے حسین لگتے ہیں اور وقت نکال کر سیر سپاٹا کرجاتے ہیں بالکل اسی طرح پہاڑی علاقے کے لوگوں کے لئے میدانی علاقے نہایت دلنشیں لگتے ہیں اور ہمارے پیارے ملک کی یہ دونوں سطح مرتفع اپنی تمام تر جاذبیت کے ساتھ اہل نظر کو دعوت نظارا دے رہی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ان دیکھے مقامات کی سیر سے زیادہ پر لطف شغل شاید ہی کوئی دوسرا ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ سیاحتی مقامات پر میزبان مخلص، تونگر اور سخی ہو تو یہ لطف الطاف میں بدل جاتا ہے اور سیاح کی صرف انگلیاں ہی نہیں سر سمیت سارا جسم کڑھائی میں گر جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیر میں اب کی بار ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہمارے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری صاحب کہنے کو رہتے شہر لیہ میں ہیں مگر پورے جنوبی پنجاب میں ان کی عزت و ثروت و شہرت کا طوطی بولتا ہے۔ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بطور اردو لیکچرر ڈگری کالج سکردو سے کیا۔ آٹھ سالہ دوران سروس میں انہوں نے ہزاروں شاگرد پیدا کیے جو اب زندگی کے مختلف شعبوں کے اعلی عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں۔ سکردو سے تبادلے کے بعد ڈگری کالج لیہ کے پرنسپل بنے، ڈائریکٹر کالجز بننے، تعلیمی بورڈ ڈیرہ غازی خان کے چیئرمین بنے ۔ جب ساٹھ سال کی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائرڈ ہوئے تو ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ بیکن لائٹ کالج اینڈ یونیورسٹی نے ہاتھوں ہاتھ بطور ڈائریکٹر لیا، اب بیس گریڈ کی پوری مراعات کے ساتھ اس پر کشش عہدے پر براجمان ہیں۔ انہوں نے جنوبی پنجاب میں اپنے گھر کو بلتستان ہائوس قرار دیا ہوا ہے۔ ہمیں یہ تیسری بار بلتستان ہائوس کے مہمان بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلی بار ان کے شاگرد عزیزان فاضل صاحب جی ایم معرفی فائونڈیشن، پروفیسر اشرف صدیقی، محمد الیاس حسن کالونی ہمارے ہم سفر تھے، دوسری بار بلتی زبان کے شاعر نامدار یوسف کھسمن ہمراہ تھے اور اب کہ بار ایک بار پھر الیاس حسن کالونی اور ان کے صاحبزادے موجود تھے ٫اس بار ہم نے شہر لیہ جانے کا ابھی ارادہ باندھا ہی تھا استاد صاحب کے واٹس ایپ پر ڈائیو کنفرم ٹکٹ کا عکس نمودار ہوا، ساتھ ہی ٹیکسٹ آئے دانش میاں آپ کا کام صرف ارادہ باندھنا ہے باقی آپ کا رخت سفر باندھنا میرا کام ہے۔ بس آپ اور الیاس صاحب بس میں سوار ہو جائیں جس کی سیٹیں کسی طور ہوائی جہاز سے کم تر ہر گز نہیں۔ لیہ بس ٹرمینل پر میں آپ کو ریسیو کروں گا آگے میں جانوں اور میرا کام ۔اگلے دن علی الصبح استاد محترم لیہ بس ٹرمینل پر استقبال کے لئے کھڑے تھے اور ہم بلتستان ہائوس میں نماز فجر ادا کر کے سو گئے ۔ آنکھ کھلی تو ناشتے کی ٹیبل پر دیگر لوازمات کے ساتھ تازہ لسی کا جگ موجود تھا اور کئی قسم کے سالن بھی۔ ناشتے میں کسی چیز کی کمی تھی تو چائے کی۔ ہم نے فورا تقاضا کیا حضور ہمارا ناشتہ چائے سے شروع ہو کر چائے پر ختم ہوتا ہے۔ سالن کے ساتھ روٹی ہم شام کے کھانے میں کھاتے ہیں۔ بس یہ سننا تھا لب سوز چائے لب ریز آگئی۔ناشتہ کے فورا بعد استاد کا حکم جاری ہوا کہ تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھ جائیں فتح پور کی اس یونیورسٹی میں جانا ہے جہاں میں ایک عرصے سے بطور ڈائریکٹر خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔ جہاں آپ کا وزٹ ہوگا، میری ڈیوٹی ہوگی اور فیکلٹی سٹاف سے آپ دونوں خطاب کریں گے۔ دانش کے بارے میں کہا ہوا ہے کہ گلگت بلتستان کے شاعر ہیں۔ استاد صاحب کی کرولا کار، صاف و شفاف سڑکیں، لش گرین کھیت و باغات، کہیں کہیں ٹیوب ویل کے نلکے، لب سڑک کہیں کہیں گڑ بنانے کے دیسی کارخانے یعنی گنا کھیت سے ٹریکٹر میں، ٹریکٹر سے کرش مشین میں، رس بالٹی میں، بالٹی سے ایک بہت بڑے پتیلے میں جس کے نیچے مسلسل دھگتی آگ ، پتیلے میں رس ابلتا ہوا جسے کوئی مسلسل ہلاتا ہوا، کافی دیر کے بعد ابلتا رس لکڑی کی ایک ٹرے میں، جہاں تھوڑی دیر میں رس کا جم جانا ، سخت ہونے سے قبل کاٹ کاٹ کر چٹائی پر گولہ بنا بنا کے رکھنا، چٹائی سے گاہکوں کی تھیلیوں میں۔ یہاں ہم گاہک ہرگز نہیں تھے۔ ہمارے استاد محترم اس پورے پروسس میں اسی انتظار میں تھے کہ تازہ تازہ گڑ تیار ہو جائے اور مہمانوں کے لئے تحائف بن جائیں۔ برف جیسی سفید چینی کے سامنے گڑ نہایت دیسی شکر لگتا ہے ویسے ہی گڑ بنانے کا طریقہ کار بھی ٹھیٹھ دیسی ہے۔ کاش اس طریقہ کار میں بھی تھوڑی جدت آجاتی دل ہی دل میں سوچا ۔لیہ ایک دلفریب شہر کا نام ہے جس کے شمال مغرب میں دور کہیں سے دریائے سندھ بھی گزرتا ہے جس کے سبب زرعی اعتبار سے بھی مالامال علاقہ ہے۔ جہاں کی کھجور، انگور ، کینو، امرود اور آم وغیرہ کی سارے ملک میں دھوم ہے۔ لیہ شہر جتنا بڑا ہے اس سے کہیں بڑے اس کے صاف ستھرے بازار ہیں اور بازاروں میں ضروریات زندگی کے تمام لوازمات کا گویا ذخیرہ موجود ہے۔ ایک بار لیہ کے صدر بازار میں گھومتے ہوئے فرمایا ۔دانش میاں جو جی چاہے خریداری کر سکتے ہیں قیمت چکانا میرا کام۔ بازار میں سستے داموں پھلوں کے ٹھیلوں کی لائنیں دیکھیں، ظاہر ہے شہر کے چاروں اطراف جب میوہ جات کے باغات ہیں تو۔فتح پور میں بیکن یونیورسٹی کے باہر فیکلٹی سٹاف ہاتھوں میں گلدستے لئے استقبال کو کھڑے تھے ۔ لائبریری میں باہمی تعارف کا سلسلہ ہوا بعد ازاں استاد محترم نے خطبہ استقبالیہ عطا کیا اور ہم دونوں مہمانوں سے گفتگو سنی۔ الیاس صاحب دانشور ہیں، انہوں نے اپنی دانشمندی کے جلوے دکھائے ۔ ہمیں ان کے جیسے جلوے دکھانے کے لئے اشعار کا سہارا لینا پڑا جسے ہماری خوشی بختی کہیے، سامعین نے پسند بھی کیا۔ استاد محترم نے یونیورسٹی کے تمام ڈیپارٹمنٹ کا وزٹ کرایا جس میں سینکڑوں طلبا اپنی اپنی کلاسوں میں مستغرق پائے ۔فتح پور سے واپسی پر استاد صاحب نے اعلان کیا کہ آج نمکین گوشت سے لنچ اڑائیں گے۔ ہم نے دل ہی دل میں سوچا، نمکین سے کیا مطلب؟ آخر وہ کونسا گوشت ہے جو بغیر نمک کے کھایا جاتا ہے اور اگر کوئی کھائے بھی تو کھانے کا مزا کیسے آئے ۔مگر جب ٹیبل پر نمکین گوشت کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ یہ تو بکرے کی ایک ران کے دو ٹکڑوں کا نام ہے جسے کوئی گوشت خور ٹائپ کا انسان ہی پورا کھائے۔ ہم اس نمکین گوشت کا آدھا بھی کھا نہ سکے۔ ہوٹل کے باہر پریشان حال دو بھوکے کتوں کو دیکھا تھا ان کے نام پارسل کرنے کا حکم دیا تو استاد صاحب نے کہا چھوڑیے میاں ان کا بھی رازق وہی ہے جو ہمیں رزق دیتا ہے۔ ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔لیہ میں استاد محترم کے دیگر تین یار چودھری صادق، چودھری محمد علی اور ڈاکٹر فاروق جن کے باہم ملنے سے پورے چار یار کا گلدستہ بن جاتا ہے اور یہ چاروں سفر و حضر اور محفل و منزل کے پکے ساتھی ہیں۔ لیہ میں دوران قیام ان یاروں کے علمی، ادبی و کاروباری نوعیت کے چٹکلوں کے ساتھ دعوتیں اڑانے کا لطف بھلا کون بھلا سکتا ہے اور لیہ کے نواح کے مولائی گائوں جمن شاہ میں آسمان چھوتے علم عباس ع کے سائے قدیم دری دربار کے پہلو میں ہمارے دوست پیارے وسیم مہدی بھائی اور مسعود مہدی کے گھر بھی گئے جہاں کھائے ہوئے سائز میں بڑے بڑے بٹیر اور مچھلی کی یاد سے آج بھی رال ٹپکتی ہے۔ یہ دری دربار اول اول قیام رسم عزاداری کے لئے شبیہہ کربلا کے طور پر بنایا تھا بعد ازاں ایک عالم دین کو یہیں دفن بھی کیا یوں اس کی حرمت و شہرت میں اضافہ کردیا۔ ہمارے وسیم بھائی کے مطابق دنیائے شیعت میں اس گائوں کو جانا جاتا ہے اور آئے دن زائرین کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ یہاں بے نظیر بھٹو بھی آتی رہیں اور آج کل فردوس عاشق اعوان آیا کرتی ہیں۔یوم عاشور اور چہلم امام منانے کے لئے ملک بھر سے ہزاروں عزادار پہنچ جاتے ہیں۔ اس دربار میں کام کرنے والے لگ بھگ ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہیں جو مختلف امور کی انجام دہی پر مامور ہیں۔ اس پورے سسٹم کی سرپرستی سید شبیر حسین کاظمی کرتے ہیں۔دانش میاں ملتان کے RAMADA HOTEL کی ہائی ٹی کی ضیافت دیے بغیر میزبانی کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ اس ہائی ٹی کے ساتھ ساتھ ملتان جیسے تاریخی شہر کی سیر بھی ہو جائے گی۔لیہ سے ملتان کے لئے ایم ایم روڈ سے جانا ہوتا ہے۔یعنی میانوالی ملتان روڈ۔ جس کی مسافت کار میں یہی کوئی پونے دو گھنٹے کی ہے۔ لیہ سے ایک گھنٹہ کی مسافت طے کرنے کے بعد روڈ جنوب کی جانب چل نکلا جس کے ساتھ ساتھ ایک طرف کو ایک بڑی نہر جاتی تھی جو تونسہ بیراج سے نکالی گئی تھی۔ نہر میں آج کل پانی تو نہیں تھا جس کے سبب اکثر جگہوں پر نچلی سطح کی خشک ریت ہوا میں اڑتی دکھائی دیتی تھی البتہ بعض نشیبی جگہوں پر پانی کھڑا بھی نظر آتا تھا اور ان کھڑے پانیوں سے لوگ مچھلی بھی نکال رہے تھے۔ یہ نہر تونسہ سے ڈیرہ غازی خان تک سینکڑوں کلومیٹر طویل رقبہ جات سیراب کرتی ہے۔ ایک طرف بڑی نہر ہو دوسری طرف سر سبز و شاداب کھیت اور باغات ہوں اور ہم سفر میں ڈاکٹر ظفر عالم ظفری جیسے کہنہ مشق عالم و فاضل استاد موجود ہوں تو سفر کا لطف دوبالا نہ ہو تو کیا ہو؟ چناب دریا کے گزرتے ہی چودھریوں اور نوابوں کے آموں کے لا محدود باغات دیکھے۔ استاد صاحب فرمانے لگے کہ ان باغات کے آم تحائف کی صورت میں جہاز بھر بھر کے دنیا بھر میں جاتے ہیں۔ملتان کو شہر اولیا بھی کہا جاتا ہے جہاں کئی ایک ولی اور صوفی مدفون ہیں۔ شہر کے وسط میں ایک ٹیلے پر دربار بہائوالدین زکریا رحمت اللہ، دربار شاہ رکن الدین رحمت اللہ جبکہ دوسری طرف شاہ شمس تبریز سبزواری کا دربار مرجع خلائق ہے، جہاں سال بھر زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان کے علاہ بھی اندرون شہر کی ہر گلی ہر نکڑ پر کہیں گنبد تو کہیں مینارا ضرور نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں اسلام کی تبلیغ کا سہرا انہی بزرگوں کے سر رہا ہے۔ملتان پھلتا پھولتا اور جیتا جاگتا پر رونق شہر ہے جس کے بیچوں بیچ چلنے والی میٹرو بسیں اور اس کے جدید ٹریک سمیت درجنوں اور ہیڈ پل اس شہر کی خوبصورتی کو دو چند کرتے ہیں۔ پچھلے وقتوں میں کراچی کی طرف جاتے ہوئے اس کے ریلوے سٹیشن یا بس اڈہ کا سرسری نظارا ہوتا تھا جو کسی طور پر کشش نہیں لگتے تھے مگر اب شہر کے بیچوں بیچ گزرنے کے بعد اس کے مزارات، جائے پیدائش احمد شاہ ابدالی، قلعہ ملتان، ملتان گھنٹہ گھر، نشتر ہسپتال، عیدگاہ مسجد، جانگلہ مسجد، انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم، اسپورٹ گرائونڈ، قاسم باغ سٹیڈیم اور ایوب سٹیڈیم اس شہر کی عزت و توقیر کو مزید بلند کرتے ہیں۔ ملتان کے شہری سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو دعائیں دیتے تھے جنہوں نے شہر کے روپ میں رنگ ڈالنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور ادھورا کام موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مکمل کرایا۔ملتان شہر کے مزاروں کی زیارات استاد محترم ظفری صاحب کی معیت میں بجا لائیں تاہم بعض دیگر سیاحتی مقامات کی سیر جناب محمد عارف کے ساتھ انجام پائی جو ہمارے ہمسفر الیاس صاحب کے گومل یونیورسٹی فیلو تھے۔ ملتان کی سیر میں انہوں نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ملتان کی سیر تو ایک بہانہ تھا اصل ہدف تو RAMADA HOTEL کی وہ ہائی ٹی تھی جس کے طفیل سارے ملتان کو ہم کار میں روند رہے تھے۔ یہ وہی ہوٹل تھا جہاں کچھ دن قبل انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم قیام پذیر تھی۔ مجھے اسلام آباد کے سرینا ، میریٹ اور راولپنڈی کے پی سی سمیت کئی دیگر فائیو سٹار ہوٹلوں کی بڑی تقریبات میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا ہے مگر جو ورائٹی رمادہ ملتان کی ہائی ٹی میں دیکھی وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ ریسٹورنٹ کی ٹیبل پر سویٹ ڈش لیتے ہوئے استاد محترم نے فرمایا دانش میاں اب آپ کی جنوبی پنجاب کی سیر مکمل ہو رہی ہے۔ اس خطے میں اس سے بڑا ہوٹل نہیں، ہوتا تو آپ کی ضیافت وہاں ہوتی۔
