سٹہ میں جنت


قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی چار آسمانی کتابوں میں سے سب سے آخری کتاب ہے جس کا نزول حضرتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوا۔قرآن مجید فرقان حمید کا مقصد صرف اور صرف ہدایت کرنا ہے تاکہ ایمان کی طاقت سے لبریز مسلمان اس ھدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی  بسر کریں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مسلمان صرف مہینے، دن اور ساعتوں کی  اہمیت دیکھ کر ایک دن اچھے کام کرکے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا پھر مختلف دنوں کی مناسبت سے تھوڑی دیر کیلئے مسلمان ہونا یاد آجاتا ہے، ہم ایک نسبتاً طویل مگر آسان  اور واضح راستہ کو طے کرنے کے بجائے مختصر پر خطر راستوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو کے سٹہ کی بازی میں جنت کی حاصل کرنے کی خواہش کرنے کے مترادف ہے۔ذوالحج کے مہینہ میں قربانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی پسندیدہ ترین چیز بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کیا جائے قربانی کی اساس کو سمجھنے کے بجائے ہماری پوری توجہ نمود و نمائش  بڑے سے بڑا جانور خریدنے، تکہ بوٹی، ران، چانپوں اور قربانی کی کھالوں  کے درمیان تقسیم ہوگئی ہے، ٹی وی چینلز پر ذوالحج کا چاند چڑھتے ہی  مصالحوں کوکنگ آئل اور ریفریجریٹرز کے اشتہارات ہماری معاشرتی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔رجب کا مہینہ آیا تو نذر و نیاز کی دیگیں چڑھا دی جاتی ہے، انواع و اقسام کے  کھانے بناتے ہیں اور کھانے والے ایسے کھاتے ہیں جیسے برسوں سے بھوکے ہیں، کوئی طریقے سے نہیں کھاتا آدھا کھا کر آدھا  پھینک دیتے ہیں، جھوٹا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جب کہ وہیں پاس  پڑوسی بھوکا سو جاتا ہے جس پر اس کا حق ہے۔ کھانا کھلانا بے شک بہت اچھا عمل ہے لیکن صرف ایک ہی دن کیوں یہ سب دکھاوا کرنے نام کمانے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور پتہ نہیں کہاں سے کون کیسی کمائی کا پیسہ دیتا ہے۔ فلاں لیڈر نے اتنی دیگیں کھانا بنوایا اور بس اس میں نام و نمود نمائش، بار بار لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کرایا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کی طرف سے اہتمام کیا گیا ہے، اور لوگ حرام و حلال جانے بغیر کھانے پر لپک جاتے ہیں۔اسی طرح شب معراجِ،شب برات میں جاگنے کا رواج عام ہوگیا ہے جس میں رات بھر ہوٹلوں کو آباد کیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر بائیک رائیڈرز سٹنٹ کرتے پھرتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اصل مقصد  فوت ہوجاتا ہے، فجر کے وقت مسجدوں میں پھر وہی گنے چنے افراد،ایسی بابرکت راتوں میں لوگ خدا کی طرف رجوع کرنے کے بجائے رات بھر سگریٹ نوشی اور چائے نوشی میں مست ہوکر عین تہجد کے وقت سو جاتے ہیں۔رمضان آتا ہے تو ابتداء میں کچھ روزے رکھ کر کہتے ہیں بہت دھوپ اور گرمی ہے روزے نہیں رکھ سکتے، اللہ معاف کریں گے، اور جو رکھنے والے ہیں وہ مسجدوں کو آرام گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جہاں اے سی لگا ہو وہاں تو نشستیں محفوظ ہوجاتی ہے۔ روزہ دار افطار تک ہلنے کا نام نہیں لیتے، ائر کولر اور پنکھے لگا کر مسجدوں میں سو جاتے ہیں نہ اپنے ستر کی فکر ہوتی ہے کہ کیسے سویا ہوا ہے جبکہ مسجدوں کو سجدوں سے آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خانہ خدا میں خالص دنیاوی امور پر گفتگو کرنا ممنوع ہے۔کچھ نوجوان پب جی، لوڈو اسٹار اور دیگر سوشل میڈیا ایپ پر روزہ گزاری کا کام کرتے ہیں۔ اور سیاستدان زور زور سے باتیں کرتے ہوئے اپنی سیاسی بصیرت کا پیغام دیتے رہتے ہیں جب کہ سالوں پارٹی لیڈر کے تلوے چاٹنے کے بعد بھی نالیوں کے الیکشن کا ٹکٹ بھی نہیں مل پاتا۔روزہ کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے وہ کیوں بھوکا رکھنا چاہے گا، اس کا مقصد اصل یہ ہے کہ ہم تقوی و پرہیزگاری اختیار کریں آخرت کی زندگی کو دنیاوی خواہشات پر ترجیح دیں۔ ایک ٹرینڈ بنا دیا گیا ہے مذہب کو فیشن ایبل کرکے اپنے آپ کو مختلف دکھانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ جیسا ماحول ملا ویسے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ کیا نوجوان کیا بوڑھے اور کیا بچے کیا عورتیں، سبھی کا یہی حال ہے جس چیز کا ٹرینڈ شروع ہوا دیوانہ وار اسکی تکمیل کیلئے تڑپتے ہیں۔ کچھ سال قبل ایک ایپ ٹک ٹاک کے نام سے متعارف کروائی گئی تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں نے تو بے پردگی کا بازار کھول رکھا ہے۔میں تو کہتا ہوں طوائفیں بد دعائیں دے رہی ہوںگی انہیں، جنکے کوٹھے اس ایپ کی وجہ سے ویران ہوگئے ہیں اور کچھ خواتین تو اتنے دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں کہ باقاعدہ مکمل برقع پہن کر ڈانس کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اب اس ایپ کو دوبارہ بند کرنے کے حوالہ سے قانونی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ جس سے بہت ممکن تھا کہ چھوٹے بچے بالغ ہونے سے پہلے گناہوں میں مبتلا ہوجائیں ۔مذہب صرف ایک دن یا الگ،الگ مواقع پر اپنے آپ کو مسلمان دکھانے کا نام نہیں ہے۔ نماز دن میں پانچ بار وقت مقررہ پر فرض ہے۔ روزے رمضان میں فرض ہیں۔ زکواة صاحب نصاب پر فرض ہے۔ جس کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ آسانی سے بیت اللہ کا سفر کر کے آ سکتا ہے اس پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے۔ لیکن ایمان ہر لمحہ فرض ہے، اس لیے چند ساعتوں کے مسلمان نہ بنئے کسی کو دکھانے کیلئے نیک عمل نہ کریں بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کیلئے نیک عمل کریں۔ ریاکاری سے بچنے کی کوشش کریں دکھاوا کرنا شرک خفی کی طرح ہے۔ اللہ ہمیں اسلام کا صحیح شعور عطا فرمائے، اور جو شعور رکھتے ہیں پر بولنے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ کیونکہ دین کے معاملے میں بندوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے نہ کہ بندوں سے، اور نہ رزق کے روک دئیے جانے سے کیونکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے نہ کوئی تمہاری موت کو تم سے قریب کر سکتا ہے اور نہ رزق کو دور کر سکتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ہماری ملی سٹہ بازی کی جھلک ہمارے حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی میں بھی نظر آتی ہے اور بحثیت ملت ہماری ترجیحات کو واضح کرتی ہے ۔اب تو ریاست مدینہ کے علمبرداروں نے قومی مفت خوروں اور بھکاریوں کے اضافہ کا ایک بہت بہترین پروگرام تشکیل دیا ہے جس پر بڑے جوش ولولہ سے عمل جاری و ساری ہے کیا پناہ گاہیں اور سرکاری لنگر خانوں کا قیام غریب طبقہ کو ہمیشہ غربت کی دلدل میں نہیں رکھے گا؟  کیا یہ اس طرح نہیں کہ نشہ کے عادی فرد کو متواتر منشیات فراہم کی جائیں کیا حکومتوں کا  کام پالیسوں کی تشکیل، قانون سازی اور ان پر عمل درآمد کروانا نہیں ہوتا؟ کیا بہتر ہو کہ حکومت اپنے ذمے واجب الادا اہم امور کی جانب توجہ دے۔ اور ایسے فلاحی کام افراد یا تنظیموں کے حوالہ کرے،  خود غربت کے خاتمے اور کاروبار کے اضافے کے لئے احسن اقدامات کرے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اقتدار پر فائز جذبہ ایمانی سے لبریز  عہدیداروں کو اس بات کا احساس تو ضرور ہوگا کہ دنیا کے بعد آخرت میں جو احتساب ہونا ہے وہ ان کی دنیاوی حیثیت کے حساب سے ہی  ہوگا اور اس سمیع العلیم کی عدالت کا احتساب نہ ٹالا جا سکتا ہے نہ اس میں کسی کو خرید کر اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا جاسکتا ہے۔