گلگت بلتستان میں گندم کا بحران

مبارک علی حیدر

 گلگت بلتستان پاکستان کاایک پسماندہ اور پہاڈی علاقہ ہے جو پاکستان کے شمال میں واقع ہے ۔یہ خطہ کوہ قراقرم و کوہ ہند کش اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے سلسلوں کے درمیاں میں واقع ہے۔ مجموعی طور پر قراقرم ہندکش اور ہمالیہ کے 109 پہاڑ اس علاقے میں موجود ہے۔ اسکے علاوہ 86 گلیشیئرز اور 12 دریا موجود ہےں۔ محل وقوع کے اعتبار سے گلگت بلتستان بہت اہمیت کا درجہ رکھتا ہے اسکے جنوب میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں ترکی اور واہ خان کی پٹی موجود ہے۔مشرق میں چین اور مغرب میں چترال کا علاقہ ملتا ہے اور یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے افغانستان ایران چین ہندوستان اور روس کی سرحدوں سے ملتا ہے اسلے اقتصادی راہداری کے لے یہ خطہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔دفاعی لحاظ سے یہ اور بھی مشہور رہا تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور انڈیا کی جغرافیائی اہمیت اور بھی بڑھ گی انڈیا کی سر حدیں کارگل اور سیاچن میں ملتی ہے۔ سیاچن تنازع کے بعد پاکستان افواج کا رخ سیاچن کیطرف ہوا۔ دفاعی نقطہ سے شاہراہ ریشم بنائی گئی جس کو قراقرم ہائی وے KKH بھی کہتے ہیں جو راولپنڈی سے گلگت پھر چین بارڈر تک ملاتی ہے۔گلگت بلتستان کا ٹوٹل رقبہ 27188 مربع میل ہے اور اسکی کل آبادی کا تناسب 1.9 ملین ہے ۔ضلع وایز آبادی کا تناسب کچھ یوں ہے چلاس کی کل آبادی 270000 گلگت 290000 غذر 170000 گانچھے160000 استور 260000ہنزہ نگر 320000اور سکردو کی ٹوٹل آبادی 310000 ہے اور گلگت بلتستان کی جی ڈی پی 27 ےو ایس ڈالر بنتی ہے۔گلگت بلتستان کا کل بجٹ 9118 ملین ہے گلگت بلتستان اسمبلی میں سیٹوں کی ٹوٹل تعداد 33 ہے جنرل سیٹےں 24 ہےں فی میل سیٹوں کی تعداد 6 اور ٹیکنو کریٹ سیٹوں کی تعداد 3 ہے کل ملاکر 33 سیٹیں اسمبلی کی بنتی ہےں۔گندم کا بحران گلگت بلتستان میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔عوام گندم کے خوشے کے لے رل رہے ہیں ۔موجودہ حکومت اور وزرا عوام سے آنکھ مچولی کھیلنے کے عادی بنے ہیں۔عوام مسلسل سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں حالیہ دنوں سکردو کے عوام نے خون جما دینے والی سردی جو منفی 12 میں دو ہفتے سے زیادہ دھرنے دے کر یہ ثابت کیا کہ واقعی وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے اور وفاق گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے مگر اسں منفی موسم میں عوام کا احتجاج میں رہنا اور یکجہتی کیساتھ بغیر فرقہ پرستی سیاسی اور لسانی رنگ سے بالا تر ہوکر ایک پلیٹ فارم میں جمع ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ؟اس سوال پر پر تھوڑا بحث ضرور آگے ہوگی۔ گندم سبسڈی اور اسکی صورت حال پر بات کرتے ہیں 1970 میں شہید ذوالفقار بھٹو نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور عوام دوست اس لیڈر نے گلگت بلتستان کے جغرافیائی اور پہاڑی پسماندہ حالت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گلگت بلتستان کے لے 1.6 ملین من گندم کا آئینی سطح پر پاکستان اسمبلی سے سبسڈائز کروادیا تاکہ یہاں کے باسیوں کو گندم کی ضروریات میں کمی نہ ہو 2008سابق صدر مشرف کے دور تک گندم کا مسئلہ اتنا نہیں رہا۔جب 2007 میں بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا اور بی بی نے شہادت نوش کی مگر مشرف حکومت کو مسائل کا سامنا ہوا اور 2008 کے آخر میں مشرف حکومت کا خاتمہ ہوااور 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔بہر حال پی پی حکومت بھی گلگت بلتستان سبسڈی کے حق میں رہی مگر 2013 میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے شروع سے ہی سابق وزیر رانا ثناءاللہ اور سابق وفاقی وزیر امور گلگت بلتستان و کشمیر برجیس طاہر نے گلگت بلتستان کی گندم سبسڈی پر کٹوتی شروع کی جو آج عوام کو اس نہج پر لے آئی ہے ۔آئے روز دھرنے دے جارہے ہیں ۔گندم کا ٹوٹل کوٹہ گلگت بلتستان کا 1.6 من ہے اور ٹوٹل گندم کا بجٹ 4.6 ملین مختص ہے تیزی سے بڑھتی آبادی اور مختص گندم کوٹہ کا موازانہ کرے تو 1/3 حصہ بنتا ہے مطلب آبادی کی بڑھتی شرح کے تحط سبسڈی بھی بڑھنی چاہےے تھی مگر بد قسمتی سے مختص کوٹہ سے بھی مسلسل کٹوتی جاری ہے اور یہ کیوں؟ اور آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے آبادی کی شرح اضافہ کی ایک خاص سبب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے اندر باہر کے باشندے بھی آباد ہورہے ہیں جس میں کاروباری اور دیگر شہروں کے لوگ شامل ہےں۔میں اپنی ایک رائے دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر گلگت بلتستان میں گندم ان کو ہی دی جائے جن کا ڈومسائل اور شناختی کارڈ گلگت بلتستان کا شہری ہونے کے ماتحت بنا ہو اس سے کافی حد تک گندم کا بحران قابو ہوگا اور حقدار شہریوں تک ان کا حق حاصل ہونے میں کافی آسانی میسر ہوگی البتہ میں خود ایک سال سے گلگت میں مقیم ہوں میں اپنے حساب سے گلگت شہر کے اندر جو باہر کے کاروباری حضرات مقیم ہےں این ایل آئی مارکیٹ سے لیکر کوہستان منڈی کشمیری مارکیٹ اور کشروٹ مارکیٹ میں تمام باہر کے باشندے آنرز ہے کل ملاکر غالبا ان کی تعداد دو ہزار سے زیادہ تجاوز ہے۔اسطرح ضلع سکردو اور اس کے گرد نواح میں بھی ہزاروں باہر کے باشندے مقیم ہےں استور دیامر اور ہنزہ نگر میں بھی یہی صورت حال ہے۔گلگت اسمبلی کو چاہےے تھا کہ فائنانشل سال کے کلوزنگ میں ان کی جانچ پڑ تال کر کے وفاق سے گلگت بلتستان کے اندر رہنے والے باہر کے باشندوں کے حساب سے سبسڈی کے اضافہ کے لےے وفاق سے بات کرنی چاہےے تھی مگر اسمبلی نے ایسی کوئی اقدام نہیں اٹھایا یا تو اسمبلی کو کرنا نہیں آیا۔ عوام کے سامنے گلگت بلتستان کی سبسڈی گندم کا کنذمپشن cunsumption کے حساب سے حقائق سامنے رکھے اگرگندم میں کرپشن نہیں کی تو ضلع وایز گندم کی تقسیم ایشو تعداد اور ایگزیٹ گندم کی بوریوں کی کنزمپشن تعداد متعلقہ جن ذمہ داروں کے حوالے کی ہیں ان سے آڈٹ کر کے سمری عوام کے سامنے لے آئیں ۔اسکا یہ حل نہیں ہے کہ وزیر خوراک پریس کانفرنس کر کے اپوزیشین پر لفظی وار کرے اس سے عوام میں اعتماد بحال نہیں ہو گاعوام کو ایسے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔عوام کو اعتماد میں لینا ہے تو آپ کو عملی ثبوت دےنا ہوگا جن کا اس آرٹیکل میں اوپر ذکر ہوا ہے عوام آپ سے اپیل کرتی ہے کہ آپ گندم بحران کے ذمہ دار ہےں اور متعلقہ اضلاع کے ذمہ داروں سے آڈٹ کر کے گندم ایشوز تعداد اور کنزمپشن تعداد کی سمری عوام کے سامنے رکھےں بصورت دےگر عوام ان کو گندم کے بحران کا ذمہ دار سمجھے گی اور عوام وزیراعلی اور دیگر اعلی حکام سے اپیل کرتے ہے کہ گندم بحران پر جلد خود از نوٹس لیں اور تحقیقات کرائےں باہر کے تمام باشندے جو گلگت بلتستان میں سیٹل ہےں یہ سب گلگت بلتستان کے کوٹہ سے گلگت بلتستان کے عوام کی گندم کھارہے ہیں نہ اس کا حل عوام کو نکالنا آتا ہے اور نہ اس میں گلگت بلتستان کی اسمبلی کوئی ٹھوس قدم عمل میں لاسکی ہے۔گلگت بلتستان کے سادے اور شریف عوام اس حالت پر پہنچے ہےں کہ اب سکردو سے دیامر اور استور سے غذر اور نگر ہنزہ سے گانچھے تک سب یک زبان ہو کر ایک ہی نعرہ سخن ہے گندم پورا کرو کیونکہ گندم بحران نے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے مگر ایک بات جو اوپر زیر بحث ہوئی تھی کہ حالیہ دنوں سکردو اور تمام گلگت بلتستان کے شہروں میں اس خون کو جمانے والی سردی میں سنی شیعہ اہلحدیث نوربخشی اور اسماعیلی سب ایک ہوئے تھے مگر سوچتا ہوں کہ گندم کا ایک دانہ میں کتنی طاقت تھی؟؟کہ سب کے سب بھائی بھائی بن جاتے ہیں بقول اقبال

 منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک 

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی

 حرم پاک بھی اللہ اور قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

گندم کا ایک دانہ وحدت unity کا ذریعہ تو بن سکتا ہے مگر ہمارے علما پڑھے لکھے نوجوان طبقہ اور اکابرین جو دینی علوم سے فیض یاب ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کرسکتے ہمارے دل اور ایمان اتنے نازک ہےں کہ ہمارے جنازے ‘نمازیں ‘مسجدیں ‘جماعت خانے اور قبریں تو سنی شیعہ اہلحدیث نوربخشی اور اسماعیلی ہےں مگر ایک خدا ایک نبی ایک قرآن ایک ایمان کے ماننے والے توہےں پھر یہ ٹھیکداری ہے۔