پچیس دسمبر ،اتحاد، ایمان ،تنظیم

قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر کو پیدا ہوئے اسلئے ہر سال ہم اسی دن کو قائد اعظم کی سالگرہ کے طور پر مناتے ہیں ، اس دن ملک بھر میں افکار قائد پر سیمینارز ، پروگرامز اور تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے جس پر صاحب بصیرت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ، اس دن کو منانے کے اصل مقاصد میں سے اہم نکتہ  افکار اور  اقوال قائد کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے اور جس خواب کے تحت پاکستان تخلیق ہوا تھا اس کی اصل تعبیر کی روشنی میں پاکستان کی تعمیر کرنا ہے مگر افسوس ! پچھتر برس گزرنے کے بعد بھی ہم افکار قائد سے عاری ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح اس ملک کو باوقار ،خوشحال ،ترقی یافتہ اور پرامن دیکھنا چاہتے تھے ، قائد کے فرامین کی بنیادیں ایک مظبوط پاکستان کی علامت تھی مگر ہم نے اسے سنجیدہ نہیں لیا، تنظیم ،اتحاد اور نظم و ضبط کے فقدان نے اس ملک کو جس نہج پر لا کھڑا کیا ہے اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی، ہم نے قائدا عظم کی روح کو تکلیف پہنچائی ہے ، بدترین گورننس، انتشار ،تعصبات ، کرپشن ، غیر زمہ داری اور تفریق کے بعد اب بد اخلاقی و بدتہذیبی جیسے رویے بھی ہمارے مزاج میں شامل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہم قائد اعظم کے افکار سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں ، قائد  فرائض کی ادائیگی کا درس سمیت اللہ پر کامل یقین کی بات کرتے تھے، وہ اسلام کے بنیادوں اصولوں کو انفرادی زندگی و اجتماعی نظام میں شامل کرنے کے خواہشمند تھے ، انکے نزدیک ترقی یافتہ ریاست ایمانداری و سچائی سے منسلک تھی ، وہ چاہتے تھے کہ کرہ ارض پر وجود پانے والا پاکستان مسلم امہ کی رہبری سمیت دنیا کو رستہ دکھائے مگر قائد کی وفات کے بعد اس ملک میں بسنے والوں کی باطنی کوتاہیوں کی وجہ سے ریاست وہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کا خواب اس سے عشروں پہلے دیکھا گیا تھا ، ہم ہر سال پچیس دسمبر کے دن کو قائد کی سالگرہ کے طور پر مناتے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے ، ہر سال 25 دسمبر کو ہمیں اپنا احتساب کرتے ہوئے یہ عہد کر لینا چاہئے کہ ہم قائد کے افکار کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں ، اپنے شب و روز کو تنظم ،اتحاد اور ڈسپلن سے جوڑ دیں جبکہ شخصی ایمانداری ،سچائی و محبت اور بہتر گورننس سمیت اپنے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے نبھانے کا عزم کریں۔ اگر ہر سال ہم قائد اعظم کا کوئی ایک قول کو بھی زندگی کا حصہ بنا لیں تو آنے والی نسلوں کو ایک پختہ ملک کی نئی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں ، قائد اعظم ایک صاحب بصیرت کرشماتی شخصیت تھیں جسے  اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقصد کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کے بیچ وجود بخشا ، جس نے مسلمانان برصغیر کو ایک ایسا ملک دیا جس کی نظیر نہیں ملتی لیکن قائد کے جانے کے بعد ہم نے اپنی زمہ داریوں کو نہیں نبھایا اور اس ملک کے درو دیواروں کو نوچتے رہے آج بھی ہم ملک سے شکوہ کرتے ہوئے پھر رہے ہیں مگر کبھی خود سے یہ نہیں پوچھا کہ آخر ہم نے اس ملک کو کیا  دیا ؟ جس ملک نے ہمیں سب کچھ دیا، جس نے آزادی دی، عزت نفس دی ، وسائل دیے ،حسن دیا ،فطرت کے مناظر کی فراوانی دی ،بے پناہ نعمتیں اور منفرد آب و ہوا دیا مگر اس کے بدلے میں ہم نے کیا دیا ؟ محض نفرتوں ، انتشار ، لوٹ مار ، کرپشن ،بدتہذیبی اور تقسیم کے۔۔۔۔۔ آئیے آج عہد کریں کہ سال 2023 کی ابتدا سے ہم قائد کے اقوال تنظیم ، ایمان اور نظم و ضبط میں سے کسی ایک پر قائم رہنے کی سعی کریں۔