عبوری صوبہ


گلگت  بلتستا ن اسمبلی نے اپنی متفقہ قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت  بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے ۔اس قرارداد کی منظوری کو حکومتی حلقے بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں تو بعض عناصر اس کوگلگت  بلتستان کے لوگوں کے حقوق کی فراہمی کے تقاضوں کے منافی قراردیتے ہوئے اسے مستردکرتے ہوئے گلگت  بلتستان کی ''اُن کے بقول'' متنازعہ حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ قبل اس کے کہ ہم اس قرارداد کی اہمیت اور اس کے گلگت  بلتستان کی تاریخی و قانونی حیثیت پر اس کے پڑنے والے اثرات پر بحث کریں ہم قرارداد کے متن کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں بحث کی جاسکے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ' گلگت  بلتستان کوعبوری صوبہ کا درجہ دے کر قومی اسمبلی ، سینیٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جائے۔عبوری صوبے کا درجہ دینے کے سلسلے میں آئین پاکستان میں مناسب ترامیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مذکورہ ترامیم سے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر سے متعلق قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی موقف برقرار رہے ۔یہ مقتدر ایوان اس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ گلگت  بلتستان کے عوام مقبوضہ کشمیر میںاپنے بھائیوںکی جد و جہد آزادی میں اخلاقی اور سیاسی حمایت حسب سابق جاری رکھیں گے۔'' اس قرارداد کو لے کر سیاسی و سماجی حلقے مختلف انداز سے سوالات اُٹھاتے رہے ہیں جن میں چند بنیادی سوال یہ ہیں کہ یہ عبوری صوبہ ہے کیا ؟ آئینی و قانونی صوبہ سے یہ کس حد تک مختلف ہے؟کیا عبوری صوبہ گلگت  بلتستان کے لوگوں کی جملہ محرومیوں کا حل ہے؟ اور عبوری صوبہ کے مطالبے اور قرارداد کی منظوری سے کیا گلگت  بلتستان کے لوگ مطمئن ہونگے ؟ عبوری صوبہ کی بجائے گلگت  بلتستان کی متازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کیایہاں آزاد کشمیر طرز پرحکومت بنائی جاسکتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی روشنی میں ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ گلگت  بلتستان کے آئینی مسئلے کا حل کس صورت میں ہونا چاہیے جو اس خطے کی تاریخی اور آئینی تقاضوں کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کے بھی عین مطابق ہو اور جو قابل عمل بھی ہو۔گلگت  بلتستان میں آئینی مکمل یا عبوری صوبہ یا آزاد کشمیر طرز کی حکومت میں سے کونسا مناسب ترین ہے اور آئینی اور قانونی طور پر کون سا آپشن اختیار کرنا چاہیے ان ضمن میںکسی نتیجے پر  پہنچنے کے لئے گلگت  بلتستان کی آزادی اور آج تک کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لینا ہوگا۔ گلگت  بلتستان جنگ ِآزادی کے نتیجے میں آزاد ہوا اور الحاق کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا۔ پاکستان نے الحاق کو قبول کرتے ہوئے گلگت  بلتستان کا انتظام سنبھال لیا۔ اسی اثناء میں مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑی تو بھارت اس معاملے کو اقوم متحدہ میں لے کر گیا جہاں طویل مباحثے کے بعد کشمیر کے مسئلے کو ریاست جموں کشمیر میں استصواب ِ رائے کے ذریعے کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جب یہ قرادادیں منظور ہو رہی تھیں تب گلگت  بلتستان جنگ آزادی کے نتیجے میں ریاست جموں کشمیر کی حکمرانی سے آزاد ہوکر پاکستان کے زیر انتظام آچکا تھا۔ایسے میں گلگت  بلتستان کو بھی استصواب رائے میں شامل رکھنے کا باقاعدہ مطالبہ کیا گیا تو یہ فقط مقبو ضہ کشمیر میں دوران استصواب بھارت کی جانب سے ممکنہ دھاندلی کی صورت پاکستان مخالف پڑنے والے بوگس ووٹوں کو کائونٹر کرنے کئے لئے گلگت  بلتستان کے ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی تھی۔اس سے بڑھ کر گلگت  بلتستان کا مسئلہ کشمیر سے اور کوئی تعلق نہیں ۔ گلگت  بلتستان کے ریاست جموں کشمیر سے عسکری جارحیت کے نتیجے میں ماضی میںقائم ہونے والا تعلق  یہاں کے لوگوں نے طویل جنگ لڑ کر ختم کردیا تھا جس کے بعد یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے کہ گلگت  بلتستان ریاست جموں و کشمیر کاحصہ ہے یا کہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 72 سالوں میں ماضی کی حکومتوں نے گلگت  بلتستان کو براہ راست وفاق کے زیر انتظام رکھا اور آزاد کشمیر کی طرح علیحدہ سے حکومت دے کر نہیں رکھا۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پرگزشتہ بہتر سالوں میں عمل در آمد کرانے میں ناکام رہا۔ نہ صرف ناکام بلکہ اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق غفلت اور کوتاہی کا مرتکب ہوتا رہا ہے جس نے بھارت کو کشمیر میںاپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنے کا موقع فراہم کیا۔ ماضی میں بھارت کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا راگ الاپتا  رہا لیکن  عالمی اداروں کی بے حسی کے باعث آخر وہ دن بھی آیا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوںاور اس انجمن کی وقار اور اتھارٹی کو ہی چلینج کرتے ہوئے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ہی خاتمہ کر کے کشمیر کوبھارتی یونین کا حصہ بنایا جس کے بعد اب اقوم متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب کی امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں ۔ یوں اب اقوم متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد محض ایک خواب بن کر ہی رہ گیا ہے۔ایسے میں گلگت  بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی آڑ لے کراب بھی حقوق سے محروم رکھنا دانشمندی نہیں۔یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اقوام متحدہ کی قراداداوں کا براہ راست اطلاق گلگت  بلتستان پرنہیں ہوتا لیکن گزشتہ 72 سال کیونکہ گلگت  بلتستان کے عوام اپنے جمہوری حقوق کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد کا انتظار کرکے کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے کا باعث بنتے رہے ہیں تو اس مرحلے پر بھی کشمیر کاز کی خاطر گلگت  بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ ''عبوری'' کے دم چھلے کے ساتھ قبول کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے ۔ اگر چہ گلگت  بلتستان وہ تمام تقاضے پورا کرتا ہے کہ اسے باقاعدہ ملک کا پانچواںصوبہ بنایا جائے لیکن گلگت  بلتستان کے عوام بہتر سالوں سے اپنے جمہوری حقوق کی قربانی دیتے چلے آرہے ہیں اور عبوری صوبے کا ٹائٹل بھی اسی قربانی کا تسلسل ہے ۔ ماضی میں گلگت  بلتستان کو اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد کے انتظار میں ایک عارضی نظام سے منسلک کئے رکھنا قومی مفاد کا تقاضا تھا تو آج کشمیر میں بدلے ہوئے حالات اور سی پیک جیسے منصوبوں کا گلگت  بلتستان گیٹ وے ہونے کے ناتے زمینی حقائق اور عین قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ گلگت  بلتستان کو فی الفور ملک کا پانچواں صوبہ بناتے ہوئے اِسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔واضح رہے کہ اس مرحلے پر گلگت  بلتستان کے عوام کی مسئلہ کشمیر اور اس کے تناظر میں قومی مفاد کے لئے قربانی ہے کہ 72سالہ محرومیوں کے بعد بھی مکمل صوبے کی بجائے عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ایک طرف گلگت  بلتستان کے عوام کشمیر کاز کے لئے مسلسل قربانی کے لئے اب بھی تیار اور آمادہ ہیں تو دوسری جانب یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ گلگت  بلتستان کو واقعی میں عبوری آئینی صوبہ بنائے کیونکہ واقعی میں عبوری صوبہ بنائے جانے کی صورت میںہی گلگت  بلتستان کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے گا بلکہ گلگت  بلتستان سے متعلق جاری منفی پروپیگنڈے بھی دم توڑ جائیںگے۔عبوری صوبہ سے مراد یہ ہے کہ گلگت  بلتستا ن بھی ملک کے دیگر چار صوبوں کی طرح ملک کا آئینی صوبہ ہوگا لیکن کشمیر کاز کے باعث لفظ ''عبوری'' کا اضافہ کیا جارہاہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ گلگت  بلتستان مسئلہ کشمیر کے حل کے مرحلے تک کے لئے عبوری طور پر پاکستان کا صوبہ ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے مرحلے پر اس کو پھر سے دیکھا جاسکے۔ گلگت بلتستان کو حتیٰ کہ عبوری صوبہ بنانے کے لئے آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں۔ جس طرح گلگت  بلتستان اسمبلی کی قرارداد اور سپریم کورٹ کے فیصلہ جات میں بھی گلگت  بلتستان میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کیلئے ملکی آئین میں ترامیم کا کہا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 1(b) میں ترمیم کرتے ہوئے گلگت  بلتستان کو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل کرنا ہے ۔ جس آرٹیکل میں پاکستان کے چار صوبوں اور قبائلی علاقہ جات کا ذکر ہے وہاں ترمیم کے ذریعے گلگت  بلتستان بھی لکھا جائے گا ۔ اسی طرح قومی اسمبلی وسینیٹ کی نشستوں کی تعداد والے آرٹیکل میں بھی ترامیم ہونگی تاکہ اس میں گلگت  بلتستان سے آنے والے ارکان پارلیمنٹ کے ممبران شامل ہو سکیں۔ ساتھ ہی قومی مالیاتی کمیشن سمیت دیگر آئینی اداروں میں نمائندگی کیلئے ترامیم وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ہاں البتہ آئین میں جہاں جہاں گلگت  بلتستان صوبے کا ذکر آئے گا مسئلہ کشمیر کے باعث وہاں لفظ عبوری لکھا جائے گا ۔ تاکہ کشمیری عوام اور بین الاقومی برادری کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ سے جو بھی اقدام اُٹھایا جائے گاپاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لئے کسی بھی لمحہ آمادہ ہے وگرنہ بعض حقیقت سے ناآشنا حلقے حکومت کی جانب سے گلگت  بلتستان کو ملک کا عبوری صوبہ بنائے جانے کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے مماثل قرار دیتے رہے ہیں ۔ لہذا اِسی ثاثر کی نفی کے لئے گلگت  بلتستان کی واضح آئینی و قانونی حیثیت کے باوجود گلگت  بلتستان کو عبوری صوبے کا نام دیا جارہا ہے۔اگر گلگت  بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا یہ مطلب لیا جائے کہ قومی اسمبلی کے آرٹیکل ون میں ترمیم  کے بغیر گلگت  بلتستان کو نمائندگی دی جائے ۔ آئین کے صرف اُن آرٹیکلز میں ترامیم کی جائیں جہاں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کا ذکر ہو تو اس سے گلگت  بلتستان کے عوام کے مطالبات پورے نہیں ہونگے کیونکہ یہ بھی تاثر ہے آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کئے بغیر گلگت  بلتستان سے جو ممبران پارلیمنٹ میںلئے جائیں گے وہ قومی اسمبلی کے باقاعدہ ممبر نہیں ہونگے بلکہ خصوصی نمائندے ہونگے اور ایوان میں اُن کی حیثیت باقاعدہ ممبران کی سی نہیں ہوگی اور نہ ہی گلگت  بلتستان سے ارکان قومی اسمبلی کے چنائو کے لئے ملک بھر کے ساتھ قومی اسمبلی کے انتخابات گلگت بلتستان میں بھی ہو سکیں گے۔اسی طرح قومی مالیاتی کمیشن سمیت دیگر آئینی اداروں میں بھی بطور مبصر نمائندگی دی جائے گی۔ آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کے بغیر گلگت  بلتستان عملی طور پرملک کا آئینی حصہ بن سکے گا نہ ہی یہ خطے قومی دھارے میں شامل ہونگے یوں گلگت  بلتستان کے عوام کی محرومیاں بھی بدستور جاری رہیںگی نیز گلگت  بلتستان سے متعلق جاری منفی پروپیگنڈے بھی اُسی شدت سے جاری رہیں گے۔