گلگت بلتستان کی خواتین


ملک کے دوسرے حصوں کی طرح سکردو میں بھی خواتین کا عالمی دن بھر پور انداز میں منایاگیا ۔اس سلسلے میں خواتین تنظیموں کی جانب سے بڑی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مرکزی تقریب خواتین کے مسائل کے حل اور فلاح و بہبود کی جد وجہد کے لئے تشکیل شدہ تنظیم'' آدم و حوا فائونڈیشن '' کے زیر اہتمام  بلتستان یونیورسٹی انچن کیمپس سکردو میں منعقد ہوئی ۔ جہاں  بلتستان میں مختلف شعبہ زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواتین کی نمائندگی کی ۔آج ان خواتین کا کردارنئی نسل کی بچیوں کے لئے یقینا قابل تقلید ہے۔تقریب میں بڑی تعداد میں نوجوان اور پڑھی لکھی خواتین بھی تھیں جو یا تو ابھی اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں یا پھر تعلیم کو مکمل کرنے کے بعداب مختلف شعبہ زندگی میں اہم اور ذمہ دار کرسیاں سنبھال چکی ہیں۔ اس تقریب کی وساطت سے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ تعلیم اور آگہی کے بدولت آج کا  بلتستان کل کے  بلتستان سے بہت ہی مختلف ہے ۔ کل جس معاشرے میں تعلیم کے لئے بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آج صورت حال یہ ہے  بلتستان میںایم اے' ایم ایس سی کرنے والی طالبات بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ اب ماشاء اللہ سے ایم فِل اور پی ایچ تک کی ڈگریاں یہاں کی بچیاں حاصل کرچکی ہیں۔ حصول تعلیم کے لئے گھر سے باہر سکول تک نکلنے میں حائل سماجی قدغنیں اب ختم ہوچکی ہیں جس کے باعث یہاں کی طالبات اعلی تعلیم کے لئے اب امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں تک جارہی ہیں ۔ اس تبدیلی کے معاشرے پر مثبت اثرات اس طرح سے مرتب ہو رہے ہیں کہ اب معاشرے میں والدین کی اولین ترجیح اپنے بچے بچیوں کی بہتر تعلیم و تربیت ہے۔ بچوںکی بہتر تعلیم و تربیت کی راہ میں والدین مالی اخراجات کی پروا نہیں کرتے اور زمینیں بیچ کر بھی اپنے بچوںکی بہتر تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شرح خواندگی میں ملک بھرمیںجو شہر آگے ہیں اُس فہرست میں ہنزہ کے بعد اب سکردو بھی نمایاں طور پر شامل ہے ۔ماضی میں سوشل ویلفیئر کا دفتر ، محکمہ تعلیم اور AKRSP ہی ایسے ادارے تھے جن میں چند نمایاں خواتین تھیں جنہوں نے سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شمولیت میں پہل کی اور معاشرے کی جانب سے بہت زیادہ تنقید کو برداشت کرکے انہوں نے اپنا ایک مقام بنایا۔ جن میں خاص طور پر سوشل ویلفیئر آفیسر زرینہ تبسم اور اے کے آر ایس پی سے کلثوم فرمان کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔لیکن آج اللہ کا کرم ہے کہ سکردو میں پولیس جیسے سخت ڈیوٹی والے محکمے کی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر سکردو سے سیدہ زرینہ بتول رضوی ، مجسٹریٹ کے عہدے پر اسی شہر سے انیلہ مہدی،کئی ایک نامور لیڈی ڈاکٹرز جن میں سے کئی ایک ایف سی پی ایس کی ڈگریاں ،حتی کہ اِسی شہر ایک قابل فخر بچی ڈاکٹر شیما یوسف پاکستان کی اُن چند ڈاکٹرز میں سے ہیں جنہوں نے FCPS  اور CPSP کے بعدلندن سے MRCOG جبکہ آئرلینڈ سے MRCPI کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ان کے علاوہ  بلتستان یونیوسٹی میں تدریس سمیت اہم عہدوں پر یہاں کی اعلی تعلیم یافتہ خواتین تعینات ہو چکی ہیں جو پورے گلگت  بلتستان بالخصوص اہل  بلتستان کے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے ۔اب محکمہ تعمیرات عامہ سمیت دیگر محکموں میں بھی خواتین بھر پور خدامات انجام دے رہی ہیں۔ اس تقریب میں گلگت  بلتستان اسمبلی کے سپیکر سید امجد زیدی مہمان خصوصی تھے جن کے سامنے تقریب کی منتظمین کی جانب سے جو مطالبات رکھے گئے اُن میں سکردو میں فیملی کورٹس کا قیام ، بے سہارا خواتین کے دارالامان اور جن جن سرکاری دفاتر میں خواتین کام کرتی ہیں اُن دفاتر میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کرنے جیسے نکات شامل تھے۔سپیکر نے اِن مسائل کے حل کے لئے صوبائی کابینہ میںمعاملات اُٹھانے اور جہاں ضرورت محسوس ہووہاں قانون سازی کی بھی یقین دہانی کرائی ۔تقریب میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے اُن میں شیلڈز اور سرٹیفکیٹس تقسیم کی گئیں ۔ اس دن کی مناسبت سے ایک تقریب وویمن فائونڈیشن  بلتستان کی جانب سے  بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن طالبات ونگ کے اشتراک سے سکردومیں منعقد ہوئی ۔ تنظیم کی صدر سیدہ فاطمہ موسوی نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ رسمی تقریب نہیں جہاں لمبی تقریریں ہوں بلکہ یہ ایک رائونڈ ٹیبل مذاکرہ ہے شریک تما م شرکا ''گلگت  بلتستان میں خواتین کے مسائل''  کے موضوع پر روشنی ڈالیں گے ۔اس تقریب میں مختلف شعبہ زندگی میں خدمات انجام دینے والی نمائندہ خواتین اور مرد شریک تھے۔ شرکا نے موضوع پر سیر حاصل بحث کی ۔ کافی دیر جاری رہنے والی بحث کا حاصل گفتگو یہ تھا کہ الحمداللہ  بلتستان میں خواتین کو حقوق کی فراہمی اور ان کے عزت و احترام کی صورت حال بہت زیادہ حوصلہ افزاء ہے البتہ معاشرے میں خواتین کی حق تلفی کے واقعات بھی ہوتے ہیں ان جیسے مسائل کے حل کے لئے خطے میں معیاری تعلیم کو عام کرنے اور تعلیمی اداروں میں تربیت کے پہلو کو بھی ملحوظ نظر رکھ کر اور معاشرے میں شعور و آگہی کے سلسلے کو بڑھا کر ان مسائل میںکمی لا سکتے ہیں ۔ خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے قانون ساز ی کے لئے ارکان اسمبلی کی تربیت اور موجود قوانین پر عمل در آمد کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعلقہ اہلکاروں کے لئے ریفریشر کورسز کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا۔ اس نوعیت کی تقریبات سے جہاں مسائل اُجاگر کئے جاسکیں گے وہاں مسائل کے حل کے لئے بہتر تجاویز بھی سامنے آسکیں گی۔