علامہ ڈاکٹر محمد اقبال پر اولین تصنیف

پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

علامہ اقبال متعدد جہتوں کے مالک ہیں،وہ بلند پائے کے شاعر،فلسفی،مدبر،مصلح،مفکر،سیاسی اور اسلامی موضوعات پر بھی دسترس رکھنے کے علاوہ، پاکستان کا خواب دیکھنے والے تھے۔ بلاشبہ وہ بیسویں صدی کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ اقبال پر لکھنے کا آغاز تو اقبال کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔ان کا اپنا علمی سرمایہ مختلف موضوعات پر خاص طور پر شاعری میں معیار اور تعداد کے اعتبار سے مثالی ہے۔ ان کے نظریات، خیالات، فلسفہ اور شاعری کو ان کے بعد آنے والوں نے اپنا موضوع بنایا اور اقبال پر لکھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ‘اقبال پر میرے مطالعہ کا آغاز 1988 میں 32 سال قبل اس وقت ہوا جب مجھے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی کتاب اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل، افکار، اور تحریکات تبصرہ کے لیے ملی۔ اس کتاب کا تفصیلی مطالعہ کیا بلکہ اقبال پر یہ تحقیق کا بھی خیال آیا کہ اقبال پر سب سے پہلی کتاب کب؟ کس نے لکھی؟ اور کیا وہ کتاب دستیاب بھی ہے یا نہیں۔ڈاکٹرمعین الدین عقیل کی کتاب پر تبصرہ گویامیری اقبال شناسی کا نقطہ آغاز تھا۔یہ اظہاریہ کراچی کے ایک جریدہ پاکستان لائبریری بلیٹن کی جلد 19 شمارہ۔ مارچ 1988 یعنی 34 سال قبل شائع ہوا۔ میں اپنی اس تحریر کو بھول چکا تھا کوئی ایک ماہ قبل پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کا ایک پیغام ملا کہ ان کی کتاب پر میرا لکھا ہوا تبصرہ انہیں درکار ہے انہوں نے جریدہ کا نام، جلد نمبر، شمارہ نمبر اور ماہ و سال بھی لکھا بھیجا۔ اس رسالے کو تلاش کرنا میرے لیے مشکل تھا حالانکہ میں اس جریدہ کا 44سال 1978 تا2012 ایڈیٹر بھی رہ چکا ہوں اور اس جریدہ کی تمام تر کاپیاں میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی لائبریری کو عطیہ کرچکا ہوں ہوں۔ سعی و جستجو نے میرا ساتھ دیا اور میں نے اپنی یہ تحریر ڈھونڈ نکالی۔اس تحریر میں راقم نے یہ تحقیق بھی کی کہ تھی کہ اقبال پر سب سے پہلی تصنیف کب اور کس نے لکھی، نیز یہ بھی کہ کتاب لکھنے والے نے اس کتاب کی تمام کاپیاں کیوں جلا ڈالیں تھیں۔علامہ اقبال ان چند علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں کہ جن کی زندگی میں ہی ان کی شخصیت، نیز شعری و نثری افکار کو ضبط تحریر میں لانا شروع ہوگیا تھا۔ اقبال پر لکھنے والوں میں ایک اہم نام مولوی احمد دین کا ہے جنہوں نے اقبال کی زندگی ہی میں اقبال پر کتاب تحریر کی۔مولوی احمد دین اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ کشمیری تھے، ادبی ذوق رکھتے تھے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ دونوں میں بہت قربت کے تعلقات تھے۔مشفق خواجہ جنہوں نے اس نادر کتاب کا طویل مقدمہ بعنوان اقبال اور مولوی احمد دین لکھا اور کتابی صورت میں سہہ ماہی اقبال ریویو نے 1967 میں شائع کیا۔مشفق خواجہ نے اقبال اور احمد دین کے تعلقات کے بارے میں حکیم احمد شجاع کی رائے نقل کی۔ لکھتے ہیں:اقبال اور مولوی احمد دین کے تعلقات بہت قریبی تھے اور مخلصانہ مولوی صاحب اقبال سے دلی محبت رکھتے تھے اور ان کے کلام سے ان کو بڑا لگا تھا۔ اقبال بھی اگرچہ مولوی صاحب سے عمر میں بہت چھوٹے نہ تھے لیکن ان کااحترام ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے اورجو شعر ان کی کسوٹی پر پورا نہ اتر تا، اسے یا تو نظر انداز کردیتے تھے اور یا اس پر دوبارہ غور کرتے تھے اس کے علاوہ اقبال ہمیشہ اپنے ذاتی معاملات میں مولوی احمد دین سے مشورہ کرتے اور انہی کے مشورہ پر عمل کرتے تھے۔اقبال اور مولوی احمد دین مصنف مشفق خواجہ، صفحہ 35 ۔اقبال پر پہلے مضمون کے بارے میں فاطمہ کاظمی نے لکھا ہے کہ اقبال پر پہلا سوانحی خاکہ مضمون محمد دین فوق نے لکھا جو اپریل1909 میں کشمیری میگزین میں شائع ہوا۔اقبال اور مولوی احمد دین کی طویل دوستی، قربت کا نتیجہ سامنے یہ آیا کہ احمد دین نے اپنے دوست کی شاعری، شخصیت اور تعلق پر مشتمل کتاب لکھنے کا سوچا اور اس پر عمل بھی کردیا لیکن اقبال سے اس کا ذکر نہیں کیا، کتاب چھپ گئی تو اقبال کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کے دوست احمد دین نے کتاب لکھی اور شائع بھی کردی۔ اقبال پر یہ پہلی تصنیف تھی۔ احمد دین اقبال سے اپنی دوستی پر اپنے دوست کو ایک ایسا تحفہ دینا چاہتے تھے جواس سے پہلے کسی نے نہیں دیا تھا لیکن احمد دین کو اس وقت افسوس ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ اقبال نے اس بات کو پسند نہیں کیا، احمد دین کو افسوس تو ہونا ہی تھا، انہوں نے اقبال کی رائے پر کوئی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کتاب کے تمام نسخے اپنے گھر کے صحن میں رکھ کر نذر آتش کردئے۔دوستی کا حق ادا کردیا لیکن زبان سے اف تک نہ کہا۔ یہ واقعہ ہے 1926کاہے۔اقبال کی ناپسندیدگی کی وجہ غالبا یہ رہی ہوگی کہ اقبال کی خواہش تھی کہ ان کا شعری مجموعہ بانگ درا پہلے منظر عام پر آجائے اور ایسا ہی ہوا اقبال کا شعری مجموعہ بانگِ درا کی اشاعت کے بعد احمد دین نے اقبال پر اپنی کتاب اقبال کے مسودہ کو پھر سے جمع کیا اور اسے از سر نو شائع کر کے اقبال پر شائع ہونے والی پہلی کتاب کا اعزاز اپنے نام کرالیا۔مولوی احمد دین کی اس تصنیف کی اشاعت کو 96سال ہوگئے۔ یہ تصنیف کراچی میں انجمن ترقی اردو پاکستان، باغ اردو کی لائبریری میں موجود ہے، معروف ادیب مشفق خواجہ کے پاس بھی اس کتاب کا ایک نسخہ موجود تھا۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب نے حال ہی میں بتایا کہ ان کے پاس بھی اس کتاب کا ایک نسخہ موجود ہے۔ راقم نے اس کتاب کا مطالعہ اسی لائبریری میں 6ستمبر2022 کو کیا۔ کتاب کا عنوان ہے اقبال علامہ سر محمد اقبال کی اردو منظومات ان کے مقصد شاعری اور خیالات کے نشوہ نما۔مضامین کلام اور طرز بیان پر ایک نظر ، مولوی احمد الدین۔ مولف سرگزشت الفاظ، 1926 ۔یہ کتاب 291صفحات پر مشتمل ہے 1926 میں دہلی وقت بورڈ لائبریری کی معاونت سے لاہور سے شائع ہوئی تھی۔مولوی احمد دین اپنے وقت کے اہل علم، مصنف و مولف شمار کیے جاتے تھے انہوں نے اقبال کے پہلی کتاب لکھنے کے علاوہ کئی تصانیف قلم بند کیں۔ ان میں اعلان حق،سرگذشت الفاظ 1932 میں شائع ہوئی، ان کے علاوہ کئی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ان میں آئینہ جاپان1901، عربستان جاپان اور اہل عرب1909، اعلان حق رسالہ الا سلام 1910 شامل ہیں۔علامہ اقبال کی اپنی پہلی نثری تصنیف علم الا قتصاد پہلی بار 1904 میں علامہ اقبال کے استاد تھامس آرنلڈ نکلسن کی فرمائش پر علامہ نے تحریر کی۔ اس کے بعد علامہ کی نثر و نظم کی تصانیف کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ علامہ کی معروف شعری مجموعوں میں بانگِ درا، بالِ جبریل، ضرب کلیم، ارمغانِ حجاز، زبور عجم، جاوید نامہ، اسلام اور جمہوریت، تشکیل جدید الہیات اسلامیہ قابل ذکر ہیں۔فارسی میں اقبال کی تین کتابیں اسرار خودی، رموزِ بے خودی اور پیام مشرق شامل ہیں۔ریختہ پر موجود معلومات 22جنوری2019 کے مطابق اردو کے نامور ادیب مشفق خواجہ مرحوم نے تاریخی اہمیت کی حامل اس کتاب کو جو عام طور پر دستیاب نہیں تھی، ایک طویل فاضلانہ مقدمہ اور نہایت مفید حواشی و تعلیقات کے ساتھ 1967میں شائع کیا۔ مولوی احمد دین کی اس کتاب پر مشفق خواجہ کا مقدمہ کتابی صورت میں بعنوان اقبال اور مولوی احمد دین کراچی سے جولائی 1967 میں سہ ماہی اقبال ریویونے شائع کیا۔ اس کتاب کا مطالعہ بھی انجمن ترقی اردو پاکستان کی لائبریری میں راقم نے کیا۔مشفق خواجہ کے مطابقمولوی احمد دین اپنے عہد کی بلند پایہ شخصیات میں سے تھے اور ان کی کم از کم ایک کتاب سرگزشت الفاظ تو اردو کے ادب عالیہ میں شمار ہوتی ہے۔انجمن ترقی اردو پاکستان، اردو باغ کی لائبریری میں موجود علامہ اقبال پر لکھی جانے والی نادر و نایاب کتاب سینچری مکمل کرنے والی ہے۔ اس کی حفاظت اور فنی اعتبار سے اسے جلد بندی اور ورق سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اس نادر تصنیف کو اور دیگر نادر کتب کو برقی تصنیف میں منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔