وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ملک میں معیشت بہتر اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے، حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں ، اس وقت پی ٹی آئی چھ سے سات گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے ، میری ذاتی رائے میں مولانا فضل الرحمان کی پی ٹی آئی کے ساتھ حمایت مجھے نظر نہیں آتی، میں سمجھتا ہوں عمران خان اور جنرل فیض حمید جیسے طالبان کو واپس لائے اور ٹی ٹی پی کو ایسٹیبلش کیا ان کے تو جرائم ان گنت ہیں،پیکا ایکٹ پر مشاورت کےلئے پہلے بھی تیار تھے، اب بھی تیار ہیں اور اس پر ابھی بہت کام ہونا ہے پشاور میں سٹیڈیم کا نام ارباب نیاز ہی رہنے دیں اور انکلوژر بے شک عمران خان کے نام پر رکھ لیں، جلد ہی ایسے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو نئی وسعتیں ملیں گی۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے ریاض میں منعقدہ سعودی میڈیا فورم میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر ایک انٹرویو میں کیا ۔ عطاللہ تارڑ نے کہا کہ سعودی عرب میں ایسی تبدیلی آئی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جو ویژن 2030 دیا تھا، وہ صرف ویژن نہیں تھا اس کی 80 فیصد تکمیل ہو چکی ہے، قدم قدم پر آپ کو تعمیر و ترقی کے نشانات واضح نظر آتے ہیں۔ا نہوں نے کہا کہ سعودی میڈیا فورم میں پوری دنیا سے صحافیوں سمیت میڈیا ایکٹیوسٹس نے بھی شرکت کی۔اس فورم میں فیک نیوز کانٹر کرنے کے حوالے سے اور بین الااقوامی اور لوکل میڈیا کے اشتراک اور میڈیا اکانومی کو فروغ دینے کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا موقع تھا۔ میں بہت خوش ہوا ہوں وہاں کی ترقی دیکھ کر۔سعودی میڈیا سے اشتراک کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ایکشن اور اشتراک پر یقین کرتا ہوں۔ میں نہ صرف وہاں کے وزیر اطلاعات کو بلکہ جو سعودی پریس ایجنسی( ایس پی اے) اور سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ (ایس آر ایم جی) ہے، ان کو بھی یہ کہا ہے کہ سعودی پریس ایجنسی کا الحاق ہو، اے پی پی کے ساتھ ایم او یو کیے جائیں تاکہ ان کے جتنے بھی ادارے ہیں ، ہم چاہتے ہیں ان کو مزید فعال کریں۔ کیونکہ یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور جو لوکل میڈیا ہے ان کا بھی سعودی گروپس کے ساتھ الحاق کا سلسلہ جاری کیا جائے۔ عطاللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ صرف نیوز تک مختص نہ رہے بلکہ تفریح، سپورٹس اور ڈراموں کے ساتھ پاکستانی ڈراموں کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ ہم تحریری طور پر ان سب چیزوں کو آگے لے کر چلیں تاکہ ہماری اکانومی کو بھی اس سے فائدہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھی شراکت داری میں دلچسپی رکھتی ہے۔فلم، ڈاکیومینٹری اور ڈرامہ پروڈکشن میں اور مثبت تاثر اجاگر کرنے میں وہ خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارا سعودی عرب سے جو تعلق ہے، وہ صدیوں پرانا ہے کیونکہ ہم بہت سے علاقائی، مذہبی اور معاشرتی اقدار کی بنا پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جس میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے۔ اس لیے میں سجمھتا ہوں کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھی جتنی قربت ان کی ہمارے ساتھ ہو سکتی ہے، وہ کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔اس فیلڈ میں پہلے سے موجود کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعودی پاک دوستی کے حوالے سے ہم نے کافی اچھی پیشرفت کی ہے اور اس سلسلے کا پہلا ڈاکیومینٹری ڈرافٹ ہم نے تیار کر لیا ہے، جس پر کام جاری ہے وہ بہت جلد ہم ان کو بھجوائیں گے۔ پھر فرمان کے حوالے سے ایک ٹیلی فلم بننی ہے، جس کے لیے ہم نے پرائیویٹ اداروں سے رابطہ کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ اچھے پروڈیوسر اس پر کام کریں تاکہ ہم ایک اچھی کوالٹی کا کام سعودی عرب کے عوام تک پہنچا سکیں۔سعودی میڈیا کا مواد پاکستانی میڈیا پر دکھانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم سعودی عرب کا کانٹینٹ بھی پاکستان میں دکھانا چاہتے ہیں۔ نیوز کے حوالے سے جو لوگ سٹوریز کرتے ہیں ویژن 2030 کے حوالے سے، وہ بھی ہم یہاں دکھانا چاہتے ہیں پی ٹی وی حاضر ہے اس پر چلائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور بہت اہم بات پر بھی اظہار خیال کیا گیا کہ وہاں کے سوشل میڈیا انفلوئنسر یہاں آئے اور پاکستان کے انفلوئنسرز کو بھی سعودی عرب جانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جیسے ابھی ریاض میں بہت شاندار میٹرو بنائی گئی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے یوٹیوبرز اور وی لاگرز اس کو کور کریں تاکہ سعودی عرب میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کو دکھا سکیں۔ پاکستان میں پیکا ایکٹ پر جاری احتجاج سے متعلق عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ پر مشاورت کےلئے پہلے بھی تیار تھے، اب بھی تیار ہیں اور اس پر ابھی بہت کام ہونا ہے۔ اس پر ابھی اتھارٹی بننی ہے، اصول بننے ہیں اس نے آن گراﺅنڈ آنا ہے۔ ابھی اس میں بہت سکوپ ہے، جو بھی نئے قوانین بننے ہیں اگر وہ مشاورت سے بنے اور میڈیا کے نمائندگان کی بھی رائے کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ پی ایف یو جی سے ہماری کچھ بات چیت شروع ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قوانین اور ضوابط کی حد تک اور اتھارٹی کے قائم تک مشاورت کی بہت گنجائش باقی ہے۔حال ہی میں سیاسی جماعت تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا کے نئے بننے والے صوبائی صدر جنید اکبر کا ایک بیان سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے ان کی پارٹی کو دو سال کے لیے خاموش رہنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ جنید اکبر خان اچھے سیاستدان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ خیبر پختونخوا میں جو تقسیم ہے، وہ شاید اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی 6،7 گروپس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ علیمہ خان گروپ، گنڈا پور گروپ، عظمی گروپ، ولی محمد خان گروپ اور شہریار آفریدی گروپ ہے۔ مگر پاکستان کی استقامت کے لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ کس چیز پر تنقید کریں، سٹاک ایکسچینج بہتر ہو رہی ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے، حالات بہتر ہ ورہے ہیں، غربت کاخاتمہ ہو رہا ہے اور عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ سیاسی اتحاد سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مولانا دور اندیش سیاستدان ہیں اور وہ ہمیشہ پاکستان کی حمایت میں بات کر تے ہیں ان سے ہمارا بہت قریبی رشتہ ہے، وزیراعظم عیادت کے لیے ان کے گھر بھی گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں مولانا کی پی ٹی آئی کے ساتھ حمایت مجھے نظر نہیں آتی۔جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے ٹرائل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ فوج بہتر بتا سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب وہ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ ٹرائل جس حوالے سے چل رہا ہے، وہ بتا سکتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید جیسے طالبان کو واپس لائے اور ٹی ٹی پی کو ایسٹیبلش کیا ان کے تو جرائم ان گنت ہیں۔پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم کا نام عمران خان رکھنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا جواب آپ کو محسن نقوی بتا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سٹیڈیم کا نام ارباب نیاز ہی رہنے دیں اور انکلوژر بے شک عمران خان کے نام پر رکھ لیں
