اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان کے عوام کو حق حاکمیت وملکیت دینے اور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے مطالبات کردیئے ہیں جبکہ ن لیگ سے پاورشیئرنگ فارمولے پر مذاکرات کا اختیار صدر آصف زرداری کو تفویض کردیا ہے صدر زرداری اس معاملے پر وزیراعظم شہبازشریف سے بات کریں گے،چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی زیرصدارت سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری اور دیگر نے کہاکہ اجلاس میں خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ اجلاس نے کرم کے معاملے پر گورنر فیصل کریم کنڈی کے کردار کو سراہا، کیونکہ انہوں نے اس معاملے پر اے پی سی بلائی تھی۔نیئر بخاری نے کہاکہ اجلاس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرہ افراد کی بحالی کے فنڈز فوری جاری کیے جائیں۔انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ اجلاس نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے اور گلگت بلتستان کے عوام کو حق حاکمیت و ملکیت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اراکین نے حکومت کے رویے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ، سی ای سی اراکین نے موقف اختیار کیاکہ پنجاب حکومت تحریری معاہدوں کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ اس کے علاوہ قومی معاملات میں پیپلزپارٹی کو مشاورت میں شریک نہ رکھنے پر بھی شدید ردعمل ظاہر کیا گیا،میڈیا رپورٹس کے مطابق (ن) لیگ سے پاور شیئرنگ فارمولے پر مذاکرات کا اختیار صدر مملکت کو دے دیا، اب صدر مملکت وزیراعظم سے پاور شئیرنگ فارمولے پر مذاکرات کریں گے۔ وفاق کی جانب سے زرعی ٹیکس لگانے پر اجلاس کے شرکا نے تحفظات کا اظہار کیا، سی ای سی نے زراعت پر عائد ٹیکس 45 فیصد سے کم کر کے بیس فیصد کرنے کی تجویز دے دی۔پی پی ارکان نے سی ای سی اجلاس میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر تفصیلی غور کیا اور کہا کہ حکومت کی پیکا ایکٹ میں ترامیم پر پارٹی کو واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اراکین نے کہاکہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنا سندھ میں آگ لگانے کے مترادف ہے۔ اراکین نے مطالبہ کیاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت یہ معاملہ حکومت کے ساتھ اعلی سطح پر اٹھائے۔اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے اور وزیراعظم شہباز شریف اپنے 5 سال مکمل کریں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ کا بینچ ہو یا آئینی بینچ انہیں آئین اور قانون کو ماننا پڑے گا، نئے ججز کے لیے برادر ججز کو مشکلات کے بجائے آسانی پیدا کرنی چاہیے، 26ویں ترمیم کے رول بیک کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے، کوئی اور ادارہ ترامیم کو رول بیک کرے گا تو نہ ہم مانیں گے اور نہ کوئی اورمانے گا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیکا ایکٹ پر میڈیا، ڈیجیٹل نمائندوں سے مشاورت ہوتی تو بہتر ہوتا، حکومت کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں بن رہی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت ملنے اور پاکستانی وزیر خارجہ کو نہ ملنے کے سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، جیو پولیٹکس کے لحاظ سے امریکا اور چین کے حالات واضح ہیں، چین کے صدر کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی، جس کے بعد ضروری تھا کہ بھارت کی طرف سے بھی نمائندگی ہو۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، یہ اپنی جگہ قائم ہے، پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور بیزائل ٹیکنالوجی ذوالفقار علی بھٹو کے تحفے اور بینظیر بھٹو کی امانت ہیں، پیپلز پارٹی کبھی ان اثاثوں اور نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کے دعوت نامے سے متعلق بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھے دعوت نامہ ملنے کی خبر میڈیا کی طرف سے ہی چلائی گئی، اب میڈیا سے ہی پوچھا جائے کہ اسے یہ خبر کہاں سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ ناشتے میں شرکت کے لیے وہ ضرور جائیں گے، یہ سلسلہ بینظیر بھٹو کے دور سے چلتا آرہا ہے۔
