مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہورہا،مکمل ہڑتال کی طرف جائینگے،ہائیکورٹ بار گلگت بلتستان

گلگت (نامہ نگار خصوصی) صدر ہائی کورٹ بار گلگت بلتستان تنویر اختر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے وکلا برادری کے 8 نکاتی مطالبات پر حکومت اور وکلا کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہوئے اور وکلا کے مطالبات کو مانا بھی گیا مگر عملدرآمد نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ تنویر اختر ایڈووکیٹ نے کے پی این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی وکلا برادری کی ہڑتال 2 نومبر سے تاحال جاری ہے مگر وکلا برادری کے مطالبات ابھی تک منظور نہیں ہوئے ہیں۔ وکلا برادری کے نمائندوں کی وزیر اعلی گلگت بلتستان سے ملاقات میں وکلا برادری کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کے مطالبات حل کرینگے اور وکلا برادری کی قیادت نے متفقہ طور پر ہڑتال میں نرمی کرتے ہوئے حکم امتناع اور ضمانت کی حد تک وکلا برادری کو عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت دی۔ مگر تمام ریگولر مقدمات میں وکلا برادری کو عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت نہیں ہے انہوں نے کہا ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کی مورخہ 3 دسمبر 2024 کی قرارداد کا حوالہ دے کر کہا کہ اس قرارداد میں وکلا برادری نے واضح طور پر یہ فیصلہ کرکے ہڑتال کو 25 فروری 2025 تک توسیع دی ہے اور یہ طے کیا ہے اگر 25 فروری تک مطالبات منظور نہیں ہوئے تو وکلا عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ وکلا برادری کے تمام تر مطالبات آئین و قانون کے مطابق ہیں اور ان مطالبات کا تعلق گلگت بلتستان کے عوامی حقوق سے ہیں۔ گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ میں گزشتہ کئی سالوں سے ججزز کا کورم مکمل نہیں ہے جس کی وجہ سے ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں، عوام کو انصاف تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے جس سے دور کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور حکومت گلگت بلتستان کو ترجیحی بنیادوں پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بابت سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر مقدمہ پر فوری طور پر میرٹ پر کیس کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ میں جوڈیشل کرائسس کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو انصاف میسر ہوسکے لیکن بدقسمتی سے اس کیس کو بار بار موخر کرنا انصاف کو مہیا نہ کرنے کی مترادف ہے ۔ تنویر اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پاکستان کی طرح جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججوں کی تعیناتی عمل میں لائی جائے تاکہ ایگزیکٹو کے ذریعے چیف کورٹ اور سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان میں ججوں کی تعیناتی کا عمل بند ہو۔ اور میرٹ پر تعیناتی ممکن ہو سکے۔ گلگت بلتستان میں فیملی کورٹس اور لیبر و کنزیومر کورٹس کا قیام بھی گلگت بلتستان کے عوام کو عدل مہیا کرنے کے لئے لازمی ہے اس طرح گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز پر وکلا برادری کا موقف بھی واضح ہے حکومت کو شفارشات پیش کی گئی ہے جو کہ عوامی حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری ہے اور حکومت گلگت بلتستان کو واضح طور پر ہم نے تحریری تجاویز پیش کی ہیں اور حکومت نے وکلا کے مطالبات تسلیم کیا ہے ۔گلگت بلتستان کے وکلا کا ایک اہم مسئلہ وکلا پروٹیکشن ایکٹ کا ہے جو پورے پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں لاگو ہیں لیکن گلگت بلتستان میں یہ ایکٹ موجود نہیں ہے ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ ایکٹ وزیراعظم پاکستان کی اجازت لے کر اڈاپ کریں گے لیکن تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اس طرح وکلا کے پلاٹس کا دیرینہ مطالبہ پورا نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان تمام مطالبات پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا ہے جس سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اس لئے گلگت بلتستان کے وکلا برادری کے مطالبات کو حکومت فوری طور پر منظور کرے تاکہ گلگت بلتستان میں جاری جوڈیشل کرائسس کا خاتمہ ہو اور عوام کو انصاف میسر ہو۔