غزہ میں جاری اسرائیلی فوج کے حملوں میں ایک ڈاکٹر سمیت مزید 18 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے محصور فلسطینیوں تک خوراک پہنچانے سے بھی روک دیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود صیہونی فوج نے غزہ کے شہریوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور تازہ حملوں میں ایک ڈاکٹر سمیت مزید 18 فلسطینی شہید ہوگئے۔ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ اسرائیل نے بیت لاھیا، بیت ہنون اور جبالیہ میں 70 دنوں سے محصور فلسطینیوں تک خوراک پہنچانے سے بھی روک دیا ہے۔دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور اس حوالے سے عرب میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ حماس غزہ پٹی سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا اور مکمل جنگ بندی کی شرائط سے دستبردار ہوگئی ہے مگر اس کے باوجود اب تک جنگ بندی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ پیشرفت یا اعلان سامنے نہیں آیا۔ دوسری جانب اسرائیل غزہ تنازع کے دوران فلسطینی خبر رساں اداروں کی خبریں شیئر کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 سے فلسطینی خبروں کو روکنے اور اسرائیل کے حق میں خبروں کو فیسبک پر زیادہ واضح دکھایا جا رہا ہے، جو فلسطینی شہریوں کی آواز لوگوں تک پہنچانے سے روکنے کا ایک بڑا پروپیگنڈا ہے۔رپورٹ کے مطابق فلسطینی ٹی وی نیوز چینل وفا، اور الوطن نیوز جیسے خبر رساں اداروں کے فیس بک پیجز دنیا بھر میں لاکھوں فالوورز کے لیے معلومات سامنے لانے کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کشیدگی کے دوران لوگ خبریں زیادہ دیکھتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر فلسطینی سے متعلقہ خبروں میں 77 فیصد کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ اسرائیلی نیوز گروپس کی مصروفیات میں 37 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اس حوالے سے میٹا کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر فلسطین کی خبروں کو روکنے کے بیانات میں کوئی صداقت نہیں۔ فلسطین ٹی وی کے فیس بک پر 5.8 ملین فالورز ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی پوسٹس دیکھنے والوں کی تعداد میں 60 فیصد کمی آئی ہے۔ فلسطین ٹی وی کے ایک صحافی طارق زیاد کا کہنا ہے کہ ہم بنیادی طور پر بند ہیں، ہماری سوشل میڈیا پوسٹس لوگوں تک نہیں پہنچ رہیں۔میٹا نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ اس نے اکتوبر 2023 میں کھلے عام عارضی اقدامات کیے تھے۔ کمپنی نے کہا کہ اس نے اس حقیقت کے ساتھ آزادی اظہار میں توازن قائم کرنے کی جدوجہد کی کہ حماس کو امریکا اور میٹا کے اپنے قوانین کے مطابق ایک خطرناک گروپ تصور کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں تشویش ہے کہ میٹا کی پالیسیاں انفرادی فلسطینیوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پانچ موجودہ اور سابق میٹا ملازمین نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کی۔ ان میں سے ایک نے انسٹاگرام کے الگورتھم میں تبدیلیوں کے بارے میں خفیہ اندرونی دستاویزات شئیر کیں جن میں کہا گیا کہ اندرونی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ انسٹاگرام نے فلسطینیوں کے تبصروں پر سخت قوانین کا نفاذ شروع کر دیا ہے۔ ایک اور اندرونی رپورٹ میں کہا گیا کہ حماس کے حملے کے بعد صرف ایک ہفتے کے اندر فلسطینیوں کے لیے قوانین کو تبدیل کر دئیے گئے۔
