قراقرم یونیورسٹی کے چلاس،غذر، ہنزہ کیمپس بند، عملہ فارغ

گلگت (پ ر) یونیورسٹی کو درپیش مالی چیلنجز کے حوالے سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوئی۔ اجلاس کی صدارت وائس چانسلر کے آئی یو پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ شاہ نے کی۔ اجلاس میں وائس چانسلر کے ہمراہ یونیورسٹی کے سینئر انتظامی وتدریسی آفیسران،شعبہ جاتی سربراہان نے شرکت کی۔ شعبہ تعلقات عامہ کے آئی یو کے مطابق ہنگامی اجلاس میں گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو مالی معاونت نہ کرنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے ایچ ای سی کے ذریعے جامعہ کو مختص فنڈمیں اضافہ نہ کر نے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے جامعہ کو مزید 200ملین روپے خسارے کا نیا چیلنج کا سامنا کرناپڑے گا۔جامعہ پہلے ہی 300 ملین روپے کے خسارے کا سامنا کررہی ہے اور KIU اور UoBS دونوں کو بالترتیب 500 ملین روپے اور 150 ملین روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سینڈیکیٹ کے ہنگامی اجلاس میں وائس چانسلر کے آئی یو نے جامعہ کی مالی حالات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمام صوبائی حکومتیں جامعات کو خصوصی گرانٹ کے طور پر معاونت فراہم کر رہی ہیں جس میں سندھ حکومت 30 ارب، کے پی حکومت 15 ارب، پنجاب حکومت 25 ارب اور بلوچستان 10 ارب روپے فراہم کر رہی ہے۔ لیکن جی بی کابینہ کے اجلاس میں جامعہ قراقرم کو گرانٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جس سے دونوں یونیورسٹیوں کے 14000 طلبہ وطالبات کا مستقبل خطرے سے دوچار ہو گا۔ رواں مالی سال میں ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹی گرانٹ میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے جس سے فیسوں کی شکل میں یہ بوجھ طلبہ وطالبات اور ان کے والدین پر منتقل ہو جائے گا۔ گزشتہ سال یونیورسٹی کی جانب سے فیسوں میں اضافہ کرنے پرطلبا کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور طلبا نے احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کو یرغمال بنا تے ہوئے کے کے ایچ کو بھی بلاک کیا۔ جس کی وجہ سے نقص امن کی صورتحال پیدا ہوئی اور جی بی حکومت بلخصوص وزیر اعلی جی بی سمیت دیگر زمہ داران کی مداخلت پرفیسوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔اس وقت وزیراعلی جی بی نے یقین دلایا تھا کہ نصف خسارہ جو کہ 200(ملین روپے) جی بی حکومت برداشت کرے گی لیکن قرض کے طور پر صرف 50 ملین روپے جاری کیے گئے۔ جسے اب گرانٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔تاہم 200 ملین روپے دینے کا وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ اس سا ل صوبائی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو 300_400 ملین روپے گرانٹ ملنے کی توقع تھی لیکن فنانس بل میں ایسی کوئی گرانٹ دینے کی بات نہیں کی گئی جو کہ مایوس کن ہے۔ چیف سیکرٹری جی بی ابرار مرزا نے کے آئی یو کے حالیہ دورے کے دوران جامعہ کو بھرپور تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم جی بی ایجوکیشن ریفارمز سٹیرنگ کمیٹی کی تیسری اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے مایوس کن ہیں جن میں جامعہ کو گرانٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے بورڑ منتقلی کا بھی مخالفت کی گئی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے فیصلہ کیا کہ طلبہ وطالبات کی فیسوں میں 25 فیصد اضافہ کر کے یونیورسٹی کو درپیش 300 ملین روپے مالی خسارے کو کم کیاجائے گا۔اراکین سنڈیکیٹ نے والدین اور طلبا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اضافی بوجھ کو برداشت کرتے ہوئے جامعہ کو درپیش مالی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ یونیورسٹی کو صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مالی تعاون کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔ ایسے میں جامعہ کے پا س طلبا کی فیسوں میں اضافے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔سینڈ یکیٹ کی ہنگامی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کو درپیش مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے چلاس غذر اور ہنزہ میں قائم سب کیمپس کو بند کر دیے جائیں گے اور وہاں پر تعینات عملے کو بھی فارغ کر دیا جائے گا،کیونکہ ان کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے جامعہ قراقرم کے پاس کسی قسم کی مالی گنجائش نہیں رہی ہے۔جامعہ کو احساس ہے کہ اس فیصلے سے تینوں سب کیمپسز کے 1500 سو طلبا اور 100 فیکلٹی و اسٹاف کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس وقت محض دیامر کیمپس میں 100 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اجلاس میں یہ بات بھی کی گئی کہ وزیراعلی گلگت بلتستان نے بورڈ کے آپریشنز کو وفاق سے جامعہ قراقرم کو خود مختار ماڈل پر منتقل کرتے ہوئے اس بورڑ کا الگ چیئرمینKIU کی مداخلت کے بغیر منتخب کرنے کا فیصلہ کیاتھا تاکہ یہ ایک پائیدار ماڈل بورڑ بن سکے۔تاہم اس وعدے پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔اجلاس میں وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر یہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ بورڈ کے لیے تعینات 72 ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیاگیاجائے گا۔کیونکہ مالیاتی استحکام کے لیے بورڈ کی کارروائیوں کو جامعہ قراقرم کے سپرد کی گئیں تھی۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے ادارے کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے قلم کی ایک جنبش سے جامعہ کو اعتماد میں لیے بغیر فیڈرل بورڈ میں منتقل کر دیا گیا۔جس سے جامعہ قراقرم کو شدید مالی چیلنجز سے دوچار ہونا پڑ رہاہے۔ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ہنگامی اجلاس میں اراکین نے وزیراعلی جی بی حاجی گلبر خان اور چیف سیکرٹری جی بی ابرار میرزا،فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل کاشف خلیل سمیت دیگر تمام زمہ داران سے درخواست کی ہے کہ وہ خطے کے 15000 نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے اپنا کردار اداکریں۔واضح رہے کہ جامعہ کو درپیش مالی مشکلات سے نمٹنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے گرانٹ نہ ملنے کی صورت میں جامعہ قراقرم کے فیکلٹی نے عید کی چھٹیوں کے بعد کلاسوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔جس پر وائس چانسلر کے آئی یو نے فیکلٹی اور اسٹاف سے درخواست کیاہے کہ وہ خطے کی نازک صورتحال کے پیش نظراپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں تاکہ گلگت بلتستان میں آزاد کشمیرجیسے حالات پیدا نہ ہوسکے۔