نیشنل پارکس فائدہ مند،پروپیگنڈہ حقائق کے منافی، وزیراعلیٰ

گلگت (پ ر) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے محکمہ جنگلات، وائلڈ لائف اور ماحولیات کے زیر اہتمام خنجراب نیشنل پارک انٹری فیس کا 75 فیصد کمیونٹی شیئرز کے چیکس کی تقسیم کے حوالے سے منعقدہ تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں کا بیشتر حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے ان جنگلات میں جنگلی حیات بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ خنجراب نیشنل پارک کو کامیاب بنانے اور اس سے استعفادہ حاصل کرنے کے حوالے سے خنجراب ویلجرز آرگنائزیشن اور غلکن کنزرویشن کمیٹی کا کردار مثالی رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ دیگر نیشنل پارکس کی کامیابی اور ان پارکس سے استعفادہ حاصل کرنے کےلئے متعلقہ کمیونٹیز کو خنجراب ویلجرز آرگنائزیشن کے تجربے سے استعفادہ حاصل کرنا چاہئے۔ خنجراب نیشنل پارک کی کامیاب کنزرویشن کی وجہ سے دنیا بھر میں اس علاقے کا نام روشن ہورہا ہے۔ داریل، تانگیر اور استور اور دیگر اضلاع میں بھی کنزرویشن کمیٹیوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے، ان علاقوں میں بھی کنزرویشن کے حوالے سے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے استعفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے صوبائی وزیر جنگلات حاجی شاہ بیگ اور سیکریٹری جنگلات کو ہدایت کی کہ وہ داریل، تانگیر اور استور کا دورہ کرکے عوام میں کنزرویشن اور اس فوائد کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں اور کنزرویشن کمیٹیوں کو فعال بنائیں۔ چند لوگوں کی جانب سے نیشنل پارکس کے قیام کے حوالے سے منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو حقائق پر مبنی نہیں۔ نیشنل پارکس کا قیام علاقے کے وسیع تر مفاد میں ہے اور متعلقہ کمیونٹیز ان نیشنل پارکس سے بھرپور استعفادہ حاصل کرسکتے ہیں جس کی کامیاب مثال خنجراب نیشنل پارک ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر خنجراب نیشنل پارک کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے پر خنجراب نیشنل پارک میں سرکاری سطح پر پروگرام کے انعقاد کا اعلان کیا جس میں دیگر نیشنل پارکس کے کنزرویشن کمیٹیوں اور متعلقہ کمیونٹیز کو خصوصی دعوت دی جائے گی تاکہ نیشنل پارکس کے قیام اور ان نیشنل پارکس کے فوائد کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے خنجراب نیشنل پارکس انٹری فیس کمیونٹی شیئر کی مد میں خنجراب ویلجرز آرگنائزیشن کو مقامی سیاحوں سے حاصل ہونے والی انٹری فیس 2 کروڑ 66 لاکھ 94ہزار8 سو64روپے کا چیک اور بین الاقوامی سیاحوں سے حاصل ہونے والی انٹری فیس 9439 ڈالرز کا چیک بھی خنجراب ویلجرز آرگنائزیشن کو دیا۔ غلکن کنزرویشن کمیٹی کو مقامی سیاحوں سے حاصل ہونے والی انٹری فیس 23 لاکھ 21ہزار 293 روپے کا چیک اور بین الاقوامی سیاحوں سے حاصل ہونے والی انٹری فیس 821 ڈالرز کا چیک بھی غلکن کنزرویشن کمیٹی کو دیا۔ ادھر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے عالمی یوم صحافت کے حوالے سے اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ صحافت ایک مقدس پیشے سے بڑھ کر ایک عظیم مشن کا نام ہے۔ آزادی اظہار رائے حقیقی جمہوریت کی علامت ہے۔ گلگت بلتستان حکومت آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون کے طورپر میڈیا کو اپنا کردار بڑی ذمہ داری سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ حق گوئی و سچائی، عوام اور مظلوموں کے حقوق، انصاف اور شہری آزادیوں کے دفاع کا دوسرا نام صحافت ہے۔ اطلاعات کی فراہمی، حقائق کی آگاہی سے صحافت معاشرے کا ذہن اور سوچ بناتی ہے۔ حق گوئی کا یہ سفر جتنا قدیم ہے، اتنا ہی کٹھن ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھی صحافت اور صحافی حضرات قائد اعظم کے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں نے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر آئین، جمہوریت اور عوامی حقوق کی تاریخی جنگ لڑی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود صحافیوں کی فلاح و بہبود کےلئے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے۔عامل صحافیوں کی فلاح و بہبود اور میڈیا کہ ترقی کیلئے دیگر صوبوں کی طرز پر اصلاحات اور اقدامات بروئے کار لانے کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں اعلی سطحی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔عامل صحافیوں کیلئے انڈومنٹ اینڈ ویلفیئر ایکٹ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت صحافیوں کو ہیلتھ انشورنس اور دیگر سہولیات فراہم کی جائینگی۔ جرنلسٹس ہاوسنگ فاونڈیشن ایکٹ کا مسودہ تیار کیا گیا ہے، جس کو کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائیگا۔گلگت بلتستان کے عامل صحافیوں کو ہیلتھ کئیر، سفری اور دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے پہلی بار ایکریڈیشن کارڈ جلد جاری کئے جائینگے۔ تمام اضلاع میں پریس کلبز کی تعمیر کیلئے سکیمیں سالانہ ترقیاتی منصوبے میں رکھے جائینگے، امسال دیامر میں پریس کلب کی تعمیر کیلئے پی سی ون کی تیاری پر کام جاری ہے، استور پریس کلب کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، جبکہ اس سے قبل صوبائی حکومت گلگت پریس کلب، سکردو پریس کلب سمیت غذر میں پریس کلب کے ہال کی تعمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل فراہم کئے ہیں، سکردو میں پریس کلب کے توسیعی منصوبے کیلئے بھی پی سی ون تیار کرکے متعلقہ فورم میں منظوری کےلئے پیش کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مرحلہ وار اگلے تین سال میں پریس کلبز کی تعمیر کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائینگے ۔صحافیوں کی پیشہ وارانہ استعداد کار بڑھانے کیلئے بھی تربیت، مطالعاتی دورے سمیت اعلیٰ سطحی وفود میں صحافیوں کی شمولیت کیلئے وفاق میں سفارشات جمع کرائی گئی ہیں۔گلگت بلتستان کے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جرنلسٹس پروٹیکشن بل سمیت ایکریڈیٹڈ صحافیوں کی ای او بی آئی اور ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ میں لازمی رجسٹریشن کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔گلگت بلتستان میں اخباری صنعت کی ترقی کیلئے ترمیمی اشتہارات پالیسی میں اخباری مالکان کی خصوصی درخواست پر پپرا قوانین میں ترامیم کے بعد کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائیگا ۔ڈیجیٹل میڈیا کی موجودہ دور میں اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کی منظوری سمیت ڈیجیٹل میڈیا چینلز کیلئے الگ سے فنڈز مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ آزادی اظہار رائے کے تحفظ اور معلومات تک رسائی کیلئے رائٹ ٹو انفارمیشن اینڈ ٹرانسپیرنسی ایکٹ کو جلد کابینہ کی منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے حالیہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے نزلہ، زکام اور بخار جیسے بیماریوں کے پھیلنے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی تھی کہ گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر نزلہ، زکام اور بخار کی وباءپھیل رہی ہے جس کو قابو پانے اور اس کے تدارک کےلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعلیٰ کے ان احکامات کی روشنی میں صوبائی سیکریٹری صحت اور دیگر متعلقہ آفیسران نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور صوبائی وزیر صحت کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پایا گیا ہے ان بیماریوں کی وجہ سے اب تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ 1321 نزلہ، زکام اوربخار کے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔ نمونیا کے 2100 مریضوں کا مختلف ہسپتالوں میں مکمل علاج کیا جاچکا ہے۔ صوبے میں پھیلنے والے نزلہ، زکام اور بخار کی وباءپر مکمل قابو پایا گیا ہے۔ بعض علاقوں میں بچوں کو خسرے کے ویکسینیشن نہ کرانے کی وجہ سے بچوں میں خسرے کی شکایات موصول ہورہی ہیں جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے گلگت اور دیامر میں چھ ماہ سے پانچ سال تک کے بچوں کو خسرے سے بچاﺅ کےلئے ویکسینیشن کی جارہی ہے اور اس حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اس موقع پر ہدایت کی کہ جن علاقوں میں بچوں میں خسرے کی شکایت موصول ہورہی ہیںان علاقوں میں مکمل ویکسینیشن کو یقینی بنائیں اور ہسپتالوں میں نمونیا کے مریضوں کی علاج کےلئے درکار انجکشن اور ادویات کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جائے۔